وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ
اور آسمان، اس نے اسے اونچا اٹھایا اور اس نے ترازو رکھی۔
1۔ وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا: یہاں بھی ’’ رَفَعَ السَّمَاءَ‘‘ کے بجائے ’’ وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا ‘‘ میں آسمان کو پہلے لا کر اس کی اہمیت کی طرف اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسے بلند کرنا اس اکیلے کا کام ہے، کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں، پھر کسی اور کی پرستش کیوں ہو؟ آسمان کو اونچا اٹھانے میں اس کے پیدا کرنے کا ذکر خود بخود آ گیا۔ اونچا اٹھانے کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ اتنے بڑے آسمان کو اس طرح ستونوں کے بغیر پیدا کرنا اور اسے اتنا بلند بنانا بے حد تعجب انگیز ہے کہ اس کے نیچے سورج، چاند اور ان سے ہزاروں گنا بڑے سیاروں پر مشتمل کہکشائیں محوِ گردش ہیں، نہ انھیں راستے میں کسی ستون کی رکاوٹ پیش آتی ہے، نہ ہزاروں نوری سالوں کے فاصلے سے ان کی روشنی زمین پر آنے کے درمیان کوئی چیز حائل ہوتی ہے۔ 2۔ وَ وَضَعَ الْمِيْزَانَ: ’’ الْمِيْزَانَ ‘‘ ’’وَزَنَ‘‘ سے ’’مِفْعَالٌ‘‘ کے وزن پر ہے جو اصل میں ’’مِوْزَانٌ‘‘ ہے، وزن کا آلہ۔ ’’وزن‘‘ چیزوں کے ایک دوسرے کے مقابلے میں برابر یا کم و بیش ہونے کے اندازے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسان کو ہر چیز کی مقدار معلوم کرنے کے لیے میزان کا طریقہ سکھایا۔ اس میزان میں ہر قسم کے پیمانے آ جاتے ہیں، وزن، کیل، مساحت، حرارت، برودت، دباؤ، نمی، غرض ہزارہا قسم کے پیمانے بنانے کا سلیقہ عطا فرمایا، جن سے وہ اپنے معاملات درست اور بہتر سے بہتر طریقے کے ساتھ چلاتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی کام بھی درست انجام نہیں پا سکتا، پھر انھی پیمانوں کے ساتھ وہ ایک دوسرے سے لین دین کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو دلی اطمینان کے ساتھ باہمی لین دین ممکن نہیں تھا۔