سورة آل عمران - آیت 199

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ یقیناً ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر بھی جو تمھاری طرف نازل کیا گیا اور جو ان کی طرف نازل کیا گیا، اللہ کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں، وہ اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہیں لیتے۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ: اس آیت میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے اس گروہ کا ذکر ہے جو سچے دل سے مسلمان ہو گئے تھے، ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے انھیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز فرما دیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، پہلی کتابوں اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں، اللہ سے ڈرنے والے ہیں، اللہ کی آیات کے بدلے دنیاوی مفاد حاصل نہیں کرتے، ان کے لیے اللہ کے ہاں ان کا اجر محفوظ ہے، بلکہ دوہرا اجر ہے، جیسا کہ سورۂ حدید (۲۸) میں ہے۔ یہ صفات یہود میں بہت کم تھیں۔ علمائے یہود میں سے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جیسے ان صفات کے حامل چند لوگ ہی تھے، جن کی تعداد دس سے زیادہ نہ تھی، البتہ نصرانیوں میں سے بہت سے لوگوں نے ایمان قبول کیا، جن میں حبشہ کے بادشاہ اصحمہ نجاشی بھی شامل تھے، ان کی موت کی خبر آنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب موت النجاشی : ۳۸۷۷، عن جابر رضی اللّٰہ عنہ ]