كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ
ان سے پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو انھوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور انھوں نے کہا دیوانہ ہے اور جھڑک دیا گیا۔
1۔ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ....: اس سے پہلے جو فرمایا تھا : ﴿وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مِّنَ الْاَنْۢبَآءِ مَا فِيْهِ مُزْدَجَرٌ﴾ تو یہاں سے ان واقعات کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ان واقعات میں جھٹلانے والوں کے لیے عبرتیں ہیں جنھیں دیکھ کر اور سن کر وہ تکذیب سے باز آ سکتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کے لیے تسلی اور حوصلے کا سامان ہے۔ یعنی ان اہلِ مکہ سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم نے انھیں جھٹلایا۔ 2۔ وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ: ’’ مَجْنُوْنٌ ‘‘ جسے جنون ہو، پاگل، دیوانہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۲۵) کی تفسیر۔ 3۔ وَ ازْدُجِرَ:يہ ’’زَجْرٌ‘‘ (جھڑکنا) سے باب افتعال کا ماضی مجہول ہے، اصل میں ’’اُزْتُجِرَ‘‘ تھا، جس میں تائے افتعال مبالغہ کے لیے ہے، یعنی اسے سخت جھڑکا گیا۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ نوح علیہ السلام کو سخت جھڑکا گیا، سب و شتم کی بوچھاڑ کی گئی، ان کا مذاق اڑایا گیا اور انھیں دھمکیاں دی گئیں۔ (دیکھیے اعراف : ۶۶۔ ہود : ۳۸۔ شعراء : ۱۱۶) دوسرا مطلب یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کی قوم نے کہا کہ یہ مجنون ہے اور اسے ہمارے معبودوں کی جھڑک پڑی ہوئی ہے، جس سے اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہی، جیسا کہ ہود علیہ السلام کی قوم نے کہا تھا : ﴿اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ ﴾ [ ھود : ۵۴] ’’ ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی نے تجھے کوئی آفت پہنچا دی ہے۔‘‘