الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غورو فکر کرتے ہیں، اے ہمارے رب! تو نے یہ بے مقصد پیدا نہیں کیا، تو پاک ہے، سو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
1۔ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ:پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے ہر چیز کے خالق اور رب ہونے کا ذکر تھا، اب اس اکیلے کی عبادت کا ذکر ہے، یعنی وہ ”أُوْلُوا الْاَلْبَابِ“ دل، زبان اور دوسرے سب اعضا سے کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے ہر حالت میں اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ روزی کماتے وقت اللہ کے حکم کا خیال رکھنا بھی اس کی یادہے، عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اسے نہ بھولنا بھی یاد ہے، نظر کو بے لگام نہ ہونے دینا بھی اس کا ذکر ہے، اسلام کی سر بلندی کے لیے جہاد کی تیاری میں مصروف ہونا بھی اس کی یاد ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے صرف نماز اور تسبیح و تحمید کو ذکر سمجھ لیا اور اللہ کی جس یاد اور ملاقات کے شوق سے صحابہ و تابعین کے سینے روشن تھے اور وہ موت کو موت کی جگہوں میں ڈھونڈتے پھرتے تھے، اس کو اپنے شب و روز سے نکال دیا، حالانکہ یہ ذکر اسلام کے بنیادی ارکان کے بعد تمام اذکار سے کہیں افضل ہے۔ فرمایا :﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ﴾ [التوبۃ : ۱۹ ] ’’کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَوْقِفُ سَاعَةٍ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنْ قِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ عِنْدَ الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ )) ’’ ایک گھڑی اللہ کے راستے ( جہاد) میں رہنا حجر اسود کے پاس لیلۃ القدر کے قیام سے افضل ہے۔ ‘‘ [ابن حبان : ۴۶۰۳ و صححہ الألبانی، الصحیحۃ : ۴۵۸۴ ] 2۔ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں۔ علوم ہیئت فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطۂ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ 3۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا: یعنی بے مقصد نہیں بنایا، بلکہ اس عالم کی انتہا دوسرے عالم میں ہو رہی ہے، جس میں حساب کتاب ہو گا۔(موضح) اس میں مادہ پرستوں اور دہریوں کا رد ہے جو کائنات کو محض اتفاق کا نتیجہ سمجھتے ہیں، یعنی غور و فکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام یونہی پیدا نہیں کیا، بلکہ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجر و ثواب پائے اور نافرمانی کرے تو آخرت میں عذاب بھگتے، اس لیے وہ آگ سے محفوظ رہنے کی دعا کرتے رہتے ہیں۔