سورة النجم - آیت 14

عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

آخری حد کی بیری کے پاس۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى: ’’ سِدْرَةِ ‘‘ بیری کا درخت۔ ’’ الْمُنْتَهٰى‘‘ ’’ اِنْتَهٰي يَنْتَهِيْ اِنْتِهَاءً ‘‘ (افتعال) سے ظرف مکان ہے، انتہا کی جگہ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس نام کی وجہ بیان فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : (( لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلٰی سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، إِلَيْهَا يَنْتَهِيْ مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَ إِلَيْهَا يَنْتَهِيْ مَا يَهْبِطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا )) [مسلم، الإیمان، باب في ذکر سدرۃ المنتھٰی : ۱۷۳ ] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات (معراج کے لیے) لے جایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے اوپر جو کچھ چڑھتا ہے اس کی انتہا وہاں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے اور اس کے اوپر سے جو کچھ اترتا ہے اس کی انتہا بھی وہیں تک ہوتی ہے، پھر اسے وہاں سے لے لیا جاتا ہے۔‘‘ مسلم کی شرح میں نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں اسی طرح چھٹے آسمان ہی کا ذکر ہے، جب کہ انس رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری روایات میں گزر چکا ہے کہ وہ ساتویں آسمان کے اوپر ہے۔ قاضی (عیاض) نے فرمایا، اس کا ساتویں آسمان پر ہونا ہی زیادہ صحیح اور اکثر کا قول ہے۔ یہی سدرۃ المنتہیٰ کے معنی کا اور نام کا تقاضا ہے کہ وہ ساتویں آسمان پر ہو۔ نووی فرماتے ہیں کہ دونوں اقوال کو جمع کرنا ممکن ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں ہے اور زیادہ تر حصہ ساتویں آسمان میں ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ بہت بڑی ہے۔ اس آیت سے جبریل علیہ السلام کو دیکھنے کا وقت اور مقام بھی معلوم ہو گیا، کیونکہ سدرۃ المنتہیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کروائی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ثُمَّ رُفِعَتْ إِلَيَّ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلاَلِ هَجَرَ، وَ إِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ هٰذِهِ سِدْرَةُ الْمُنْتَهٰی)) [ بخاري، المناقب، باب المعراج : ۳۸۸۷، عن مالک بن صعصعۃ رضی اللّٰہ عنھما ] ’’پھر سدرۃ المنتہیٰ میرے سامنے ظاہر ہوئی، دیکھا تو اس کے بیر (پھل) ہجر شہر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: یہ سدرۃ المنتھیٰ ہے۔‘‘