وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ
اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، پس بے شک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کر جب تو کھڑا ہو۔
1۔ وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ: یہاں ’’لام‘‘ ’’عَلٰي‘‘ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم پر عمل کرنے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور دعوت کا کام جاری رکھو، جیسے فرمایا : ﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ ﴾ [ المزمل : ۱۰ ] ’’اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں۔‘‘ اور اگر ’’إِلٰي‘‘ کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر کرو، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ﴾ [یونس : ۱۰۹] ’’اور صبر کر یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے۔‘‘ اس مقام پر حرف ’’لام‘‘ لانے سے ایسا جامع مفہوم پیدا ہو رہا ہے جو کوئی اور حرف لانے سے پیدا نہیں ہوتا۔ ’’وَاصْبِرْ لِحُكْمِنَا ‘‘ (اور ہمارے حکم پر صبر کر) کے بجائے فرمایا : ﴿وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ ﴾ (اور اپنے رب کے حکم پر صبر کر) مطلب یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ تیری نگہداشت اور حفاظت کرے۔ 2۔ فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا: کیونکہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہم ہر وقت تجھے دیکھ رہے ہیں اور تیری نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ تجھے نقصان پہنچا سکے۔ مزید دیکھیے سورۂ ہود (۳۷)۔ 3۔ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ: صبر کے ساتھ تسبیح و تحمید یعنی نماز کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ﴾ [ البقرۃ : ۴۵ ] ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔‘‘ 4۔ ’’ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ ‘‘ کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ ’’اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر‘‘ مگر اس سے مراد نماز ہے۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۰) کی تفسیر۔ 5۔ حِيْنَ تَقُوْمُ: اکثر مفسرین نے ’’ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ ‘‘ سے ’’سبحان الله‘‘ اور ’’الحمد لله‘‘ کہنا مراد لیا ہے اور ’’ حِيْنَ تَقُوْمُ ‘‘ سے مراد بعض نے یہ لیا ہے کہ نیند کے بعد بستر سے اٹھتے وقت ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ‘‘ کہو۔ بعض نے اس سے مجلس سے اٹھتے وقت کفارۂ مجلس کی دعا ’’ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَ أَتُوْبُ إِلَيْكَ ‘‘ مراد لی ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت ’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ‘‘ (دعائے استفتاح) ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر خطاب کے لیے کھڑے ہوتے وقت تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے۔ مگر انھی مفسرین نے اگلی آیت ’’ وَ مِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ ‘‘ میں تسبیح سے مراد نمازِ تہجد اور ’’ وَ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ‘‘سے مراد نمازِ فجر لی ہے۔ حق یہ ہے کہ ’’سَبَّحَ‘‘ کا جو معنی ’’ مِنَ الَّيْلِ‘‘ اور ’’ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے وہی معنی ’’حِيْنَ تَقُوْمُ‘‘ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ طبری نے یہاں پہلے دو قول ذکر فرمائے ہیں، ایک یہ کہ نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید کرے، دوسرا یہ کہ جب فرض نماز کے لیے کھڑا ہو تو ’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِك....‘‘ دعا پڑھے۔ پھر فرمایا : ’’صواب کے سب سے زیادہ قریب ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ’’ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ ‘‘ کا معنی ہے ’’صَلِّ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ مِنْ مَنَامِكَ وَ ذٰلِكَ نَوْمُ الْقَائِلَةِ، وَ إِنَّمَا عَنٰي صَلَاةَ الظُّهْرِ‘‘ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ نماز پڑھ جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ نیند سے مراد دوپہر کی نیند ہے اور نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔‘‘ فرماتے ہیں : ’’ہم نے اس قول کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ’’سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ‘‘ پڑھنا کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں اور ہم نے دوپہر کی نیند سے اٹھنا اس لیے مراد لیا ہے کہ لوگوں کا معروف نیند سے اٹھنا یا تو رات کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نمازِ فجر کا وقت ہے یا دوپہر کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نمازِ ظہر کا وقت ہے۔ تو جب ’’ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ ‘‘ کے بعد ’’ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ ‘‘ کے وقت تسبیح کا حکم دیا جو رات کی نیند سے اٹھ کر نمازِ فجر کی دو رکعتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ ’’ حِيْنَ تَقُوْمُ ‘‘ سے مراد وہ نماز ہے جو رات کی نیند سے اٹھنے کے علاوہ ہے اور وہ نمازِ ظہر ہے۔ ‘‘ (طبری) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ ’’ حِيْنَ تَقُوْمُ ‘‘ سے مراد نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید ہے، لیکن اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ طبری کی ترجیح یہ نہیں ہے۔