أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
یا تو ان سے کوئی اجرت مانگتا ہے؟ پس وہ تاوان سے بوجھل کیے جانے والے ہیں۔
اَمْ تَسْـَٔلُهُمْ اَجْرًا ....: ’’ اَلْغُرْمُ وَ الْغَرَامَةُ وَ الْمَغْرَمُ‘‘ تاوان، چٹی، جو مال آدمی کو نہ چاہنے کے باوجود دینا پڑ جائے۔ ’’ اَجْرًا ‘‘ پر تنوین تنکیر کے لیے ہے، کسی بھی طرح کی اجرت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ آپ ان سے کسی طرح کی اجرت کا مطالبہ کرتے ہوں اور وہ تاوان سمجھ کر بوجھ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ جب آپ ان سے کسی طرح کی اجرت یا معاوضے کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اپنی مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے سمجھتے ہیں اور اپنی کمائی یا کاروبار کی بھی پروا نہ کرتے ہوئے ہر وقت ان کی خیرخواہی کے لیے ان کے پیچھے پھرتے ہیں تو پھر وہ آپ سے دور کیوں بھاگتے ہیں؟ مزید دیکھیے سورۂ مومنون (۷۲)۔