أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ
یا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس پر ہم زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں؟
اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ: ’’تَرَبَّصَ يَتَرَبَّصُ‘‘ (تفعّل) ’’آنے والے کسی شر یا خیر کا انتظار کرنا۔‘‘ ’’ الْمَنُوْنِ ‘‘ ’’مَنَّ يَمُنُّ مَنًّا‘‘ (ن) کا معنی ’’قطع کرنا‘‘ ہے۔ ’’ الْمَنُوْنِ ‘‘ بروزن ’’فَعُوْلٌ‘‘ (کاٹنے والا) موت کو کہتے ہیں، کیونکہ وہ زندگی کی رسی کو کاٹ دیتی ہے، اور زمانے کو بھی، کیونکہ وہ بھی زندگی کے ایام کو کاٹتا چلا جاتا ہے۔ ’’ رَيْبَ ‘‘ کا اصل معنی شک اور بے چینی ہے، لیکن جب اس کا استعمال زمانے کے ساتھ ہو تو مراد زمانے کے حوادث ہوتے ہیں، کیونکہ وہ آدمی کو بے چین رکھتے ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے انکار اور تعجب کے انداز میں ان مشرکین کی جہالت کی باتوں کا پندرہ (۱۵) دفعہ لفظ ’’ اَمْ ‘‘ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور ہر ’’ اَمْ ‘‘ کے بعد سوال کرتے ہوئے ان پر الزام قائم کیا ہے، جس کا جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا : ﴿اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ ﴾ ’’یا وہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔‘‘ کفار کا یہ قول نقل فرما کر تردید کی ضرورت نہیں سمجھی، کیونکہ قرآن مجید کا وجود ہی اس کی تردید کے لیے کافی ہے۔ البتہ ان کی اس بات کا جواب دیا ہے کہ ہم اس پر زمانے کے حوادث کا انتظار کرتے ہیں کہ اس پر کوئی آفت آ جائے، یا اس کی موت کا وقت آ جائے، جس کے ساتھ اس کی دعوت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔