الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
جنھوں نے کہا بے شک اللہ نے ہمیں تاکیدی حکم دیا ہے کہ ہم کسی رسول کی بات کا یقین نہ کریں، یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لائے جسے آگ کھا جائے، کہہ دے بے شک مجھ سے پہلے کئی رسول تمھارے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے اور وہ چیز لے کر بھی جو تم نے کہی ہے، پھر تم نے انھیں کیوں قتل کیا، اگر تم سچے تھے۔
1۔ اَلَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَيْنَاۤ:یہ ان کا دوسرا اعتراض ہے جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے سلسلے میں پیش کیا کہ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ عہد لیا ہے کہ اگر کوئی نبی یہ معجزہ پیش نہ کرے تو اس پر ایمان نہ لائیں۔ (رازی) حالانکہ ان کی کسی کتاب میں یہ حکم نہیں اور ان کے تمام انبیاء کو یہ معجزہ عطا بھی نہیں ہوا تھا، جیسا کہ اسی آیت میں اشارہ ہے : ﴿قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ﴾ یہاں ”رُسُلٌ“ نکرہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تمام انبیاء کو نہیں، بلکہ بعض کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ جب کوئی سوختنی (جلائی جانے والی) قربانی (نذر) پیش کی جاتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، اس قربانی (نذر) کی قبولیت کی علامت کے طور پر آسمان سے آگ اترتی، جو اسے جلا ڈالتی، جیسا کہ ایلیاء اور سلیمان علیہما اسلام کے متعلق مذکور ہے۔ (ابن کثیر) 2۔ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ:یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے، جو اوپر ذکر ہوا کہ اگر واقعی تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تمہارے آباء و اجداد نے ان بہت سے انبیاء کو قتل کیوں کر ڈالا جو اپنی نبوت کے صدق پر دوسری واضح دلیلوں کے ساتھ یہ معجزہ بھی لے کر آئے جس کا تم مطالبہ کر رہے ہو ؟