سورة آل عمران - آیت 182

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ بے شک اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اَنَّ اللّٰهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ: اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”ظَلاَّمٌ“ مبالغے کا صیغہ ہے، جس کا معنی بہت ظلم کرنے والا ہے۔ بظاہر معنی یہ ہوا کہ ’’اللہ بندوں پر بہت ظلم کرنے والا نہیں‘‘ گویا کم ظلم کر سکتا ہے۔ اس کا ایک جواب استاذ مرحوم مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ نے دیا ہے : ’’اس مبالغے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی نفی کے یہ معنی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے (نعوذ باللہ) رتی برابر بھی ظلم صادر ہو تو وہ ”ظَلاَّمٌ“ ٹھہرے گا اور اللہ تعالیٰ کی ذات ظلم سے منزہ ہے۔‘‘ یہ جواب بھی اچھا ہے، مگر اس سے قوی جواب یہ ہے کہ بعض اوقات مبالغے کے صیغے پر نفی آئے تو اس سے مراد مبالغہ کی نفی نہیں ہوتی بلکہ نفی میں مبالغہ ہوتا ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ’’ اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔‘‘ جیسا کہ طرفہ نے کہا ہے: وَلَسْتُ بِحَلاَّلِ التِّلَاعِ مَخَافَةً وَلٰكِنْ مَتٰي يَسْتَرْفِدِ الْقَوْمُ أَرْفِدِ ظاہر الفاظ کے مطابق ترجمہ یہ ہو گا ’’اور میں خوف کی وجہ سے ٹیلوں پر بہت زیادہ چڑھنے والا نہیں، بلکہ قوم جب مجھ سے عطیہ مانگے تو میں عطیہ دیتا ہوں۔‘‘ مگر یہاں یہ معنی نہیں کہ میں بہت زیادہ چڑھنے والا نہیں، بلکہ معنی ہے کہ میں بالکل ٹیلوں پر نہیں چڑھتا۔ دلیل یہ ہے کہ میں عطیہ مانگنے پر دیتا ہوں۔ دیکھیے ’’ البحر المحیط ‘‘ اور ’’ اللباب‘‘ وغیرہ۔