وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ
اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔
1۔ وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ: شروع سورت میں چار طرح کی ہواؤں کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ قیامت حق ہے، پھر اس پر آسمان کی قسم اٹھائی۔ اب ’’واؤ‘‘ کے ذریعے سے اسی کے ساتھ سلسلہ کلام جوڑ کر فرمایا : ’’اور زمین میں بھی یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ یہ وہی استدلال ہے جو قرآن میں قیامت حق ہونے کے لیے جا بجا موجود ہے۔ مثلاً فرمایا : ﴿وَ مِنْ اٰيٰتِهٖ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ اِنَّ الَّذِيْ اَحْيَاهَا لَمُحْيِ الْمَوْتٰى ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۳۹ ] ’’اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دبی ہوئی (بنجر) دیکھتا ہے، پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہاتی ہے اور پھولتی ہے۔ بے شک وہ جس نے اسے زندہ کیا، یقیناً مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ زمین کی پہلی ساری کھیتی چورا بن کر ختم ہوجاتی ہے، پھر دوبارہ نئی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ہر شخص کے مشاہدے میں آتی ہے، اس پر بہت زیادہ غور و فکر کی ضرورت نہیں، صرف یقین کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس آیت میں غور و فکر کی دعوت نہیں دی، جس طرح اس کے بعد والی آیت میں ’’ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ ‘‘ فرمایا ہے، بلکہ فرمایا : ’’زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ یہ اس لیے فرمایا کہ ان نشانیوں سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جو یقین کرتے ہیں۔ 2۔ ’’ وَ فِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ ‘‘ (اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں) اس میں صریح الفاظ میں یہ نہیں بتایا کہ کس چیز کی نشانیاں ہیں، کیونکہ اس میں صرف قیامت حق ہونے ہی کی نشانیاں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور اس کی لامحدود قدرت کی بھی بے شمار نشانیاں ہیں۔ زمخشری نے فرمایا : ’’اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جو صانع اور اس کی قدرت و حکمت اور تدبیر پر دلالت کرتی ہیں، چنانچہ زمین اپنے اوپر والی چیزوں کے لیے بچھونے کی طرح ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ مَهْدًا ﴾ [ طٰہٰ : ۵۳ ] ’’وہ جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا بنایا۔‘‘ اور چلنے والوں کے لیے اس میں راستے اور وسیع شاہراہیں ہیں جو اس کے کندھوں پر چلتے پھرتے ہیں اور اس کے مختلف حصے ہیں، جیسے میدان، پہاڑ، ریگستان، سمندر وغیرہ اور کئی ٹکڑے ہیں، مثلاً سخت، نرم، زرخیز، شور وغیرہ۔ وہ حاملہ جانور کی طرح ہے جس کے پیٹ سے بے شمار پودے، درخت اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کے رنگ، خوشبو اور ذائقے مختلف ہیں، حالانکہ سبھی ایک ہی پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایک دوسرے پر برتری رکھتے ہیں اور یہ سب کچھ زمین پر رہنے والوں کی ضروریات، ان کی صحت و بیماری کی مصلحتوں کے عین موافق ہے۔ پھر اس میں پھوٹنے والے چشمے، رنگا رنگ معدنیات اور خشکی، ہوا اور سمندر میں پھیلے ہوئے مختلف شکلوں، صورتوں اور کاموں والے وحشی، پالتو، مفید اور زہریلے جانور اور اس کے علاوہ شمار سے باہر چیزیں ہیں جن میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں، کیونکہ وہی دیکھنے والی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔‘‘