سورة الذاريات - آیت 8

إِنَّكُمْ لَفِي قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہ بلا شبہ تم یقیناً ایک اختلاف والی بات میں پڑے ہوئے ہو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ: یعنی یہ آسمان جو نہایت مضبوط و مستحکم اور بے حد خوبصورت ہے، جس میں ستاروں کے راستے ہیں اور جو بادلوں کی لہروں سے آراستہ ہے، شاہد ہے کہ تم ایسی بات میں پڑے ہوئے ہو جس میں تمھارا بہت اختلاف ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس میں آسمان کی شہادت کیسے ہے اور یہ کہنے سے حاصل کیا ہے کہ تم ایسی بات میں پڑے ہوئے ہو جس میں بہت اختلاف ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اتنا مستحکم و مضبوط، بلند و بالا، خوبصورت اور مزین آسمان شاہد ہے کہ اس کے بنانے والے کے لیے قیامت برپا کرنا اور تمھیں دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنٰىهَا ﴾ [ النازعات : ۲۷ ] ’’کیا پیدا کرنے میں تم زیادہ مشکل ہو یا آسمان؟ اس نے اسے بنایا۔ ‘‘ رہا یہ سوال کہ جواب قسم ’’ اِنَّكُمْ لَفِيْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ‘‘ کی مناسبت قسم کے ساتھ کیا ہے؟ تو جواب اس کا یہ ہے کہ دراصل یہاں بات مختصر کی گئی ہے، تفصیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مضبوط و مستحکم آسمان کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے گروہ کفار! اس آسمان کی قسم ہے کہ قیامت کے متعلق اللہ کا قول حق اور تمھارا قول باطل ہے، کیونکہ تم ایسے قول میں پڑے ہوئے ہو جو باہم مختلف اور متناقض ہے، جب کہ حق میں اختلاف نہیں ہوتا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا﴾ [ النساء : ۸۲ ] ’’اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ چنانچہ تم میں سے کوئی تو کہتا ہے کہ یہ دنیا ایسے ہی چلی آئی ہے، کچھ لوگ مرتے ہیں اور دوسرے پیدا ہوتے ہیں، نہ آج تک کوئی دوبارہ آیا نہ کوئی دوبارہ زندگی ہے۔ کوئی تناسخ کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ اچھے اور برے اعمال کا بدلا تو لازم ہے مگر اس کے لیے کوئی دن مقرر نہیں، بلکہ انسان دنیا میں بار بار اچھی یا بری مخلوق کی صورت میں جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی آخرت کو تو مانتا ہے مگر کچھ ہستیوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ ایسی زور آور ہیں کہ اپنی شفاعت کے ساتھ اس دن اپنے نام لیواؤں کو زبردستی چھڑا لیں گی۔ یہ اختلاف دلیل ہے کہ قیامت کے متعلق تمھارا قول باطل ہے۔ قیامت کے متعلق کفار کے اختلاف کا ذکر سورۂ نبا کے شروع میں بھی فرمایا : ﴿عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ (1) عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ (2) الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْتَلِفُوْنَ ﴾ [ النبا : ا تا ۳ ] ’’کس چیز کے بارے میں وہ آپس میں سوال کر رہے ہیں؟ (کیا) اس بڑی خبر کے بارے میں؟ وہ کہ جس میں وہ اختلاف کرنے والے ہیں۔‘‘