سورة ق - آیت 36

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی نسلیں ہلاک کردیں، جو پکڑنے میں ان سے زیادہ سخت تھیں۔ پس انھوں نے شہروں کو چھان مارا، کیا بھاگنے کی کوئی جگہ ہے ؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ .....:’’ فَنَقَّبُوْا ‘‘ نقب کا معنی سوراخ ہے۔ ’’نَقَبَ (ن) فِي الْأَرْضِ‘‘ زمین میں گھوما پھرا۔ ’’نَقَّبَ تَنْقِيْبًا‘‘ (تفعیل) میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے معنی میں مبالغہ ہے، خوب گھوما پھرا۔ نقب (سوراخ) کی مناسبت سے ’’ فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے : ’’پس انھوں نے شہروں کو چھان مارا۔‘‘ اس سے پہلے کفار کو آخرت میں دیے جانے والے عذاب کا ذکر فرمایا، درمیان میں ایمان والوں کے حسن انجام کا ذکر کرنے کے بعد اب کفار کو دنیا میں دیے جانے والے ہولناک عذابوں کا ذکر فرمایا۔ مقصود کفار کو ڈرانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کو تسلی دلانا ہے کہ وہ کفار کی شان و شوکت سے مرعوب نہ ہوں۔ 2۔ یعنی ہم نے ان کفار سے پہلے بہت سی نسلیں ہلاک کر دیں جو گرفت میں ان سے بہت سخت اور ان سے زیادہ قوت والی تھیں، جیسا کہ قومِ نوح، عاد، ثمود اور قومِ فرعون وغیرہ۔ تو ان کے مقابلے میں ان بے چاروں کی کیا بساط ہے؟ مزید دیکھیے سورۂ روم (۹)۔ فَنَقَّبُوْا فِي الْبِلَادِ: یعنی وہ اہلِ مکہ سے تجارت اور کاروبار میں بھی بہت آگے تھے، چنانچہ انھوں نے اس مقصد کے لیے دنیا کے شہروں کو چھان مارا تھا۔ بعض اہلِ علم نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک ہی پر قوت و گرفت نہیں رکھتے تھے بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی جاگھسے تھے۔ هَلْ مِنْ مَّحِيْصٍ: ’’ مَحِيْصٍ ‘‘ ’’حَاصَ يَحِيْصُ حَيْصًا‘‘ سے ظرف ہے، بھاگنے کی جگہ۔ یعنی جب ان پر عذاب آیا تو وہ اس سے بھاگنے کی جگہ ڈھونڈتے پھرے کہ کیا بھاگنے کی کوئی جگہ ہے، مگر انھیں کہیں جائے پناہ نہ ملی۔