إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ
جب (اس کے ہر قول و فعل کو) دو لینے والے لیتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔
1۔ اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ:’’تَلَقّٰي يَتَلَقّٰي‘‘ (تفعّل) لینا، استقبال کرنا۔ ’’ يَتَلَقَّى‘‘ اور ’’الْمُتَلَقِّيٰنِ‘‘ کا مفعول محذوف ہے : ’’أَيْ جَمِيْعَ أَقْوَالِهٖ وَ أَفْعَالِهٖ‘‘ ’’اِذْ‘‘ پچھلی آیت میں ’’اَقْرَبُ‘‘کا ظرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے دو فرشتے اس کے ہر قول و فعل کو لے کر لکھ رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے دل میں آنے والے وسوسے اور سینے کے راز بھی خوب جانتے ہوتے ہیں۔ 2۔ ’’قَعِيْدٌ‘‘ بمعنی ’’مُقَاعِدٌ‘‘ ہے، جیسے ’’جَلِيْسٌ‘‘ بمعنی ’’مُجَالِسٌ‘‘ ہے۔ یعنی وہ انسان کے ساتھ لازم رہتے ہیں۔ ’’قَعِيْدٌ‘‘ (ساتھ بیٹھے ہوئے) کا لفظ ان کے بیدار اور ہشیار رہنے کی کیفیت کے بیان کے لیے ہے کہ وہ انسان سے سرزد ہونے والے کسی بھی قول یا فعل کو لکھنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں، کسی لمحے بھی ان کے الگ ہونے یا غفلت یا نیند کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ 3۔ یہاں ایک سوال ہے کہ فرشتے تو دو ہیں مگر ان کی کیفیت بیان کرنے کے لیے لفظ ’’ قَعِيْدٌ ‘‘ لایا گیا ہے جو واحد ہے، اسے تثنیہ بنا کر ’’قَعِيْدَانِ‘‘ کیوں نہیں کہا گیا؟ مفسرین نے اس کے دو جواب دیے ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ’’كُلُّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا ‘‘ ہے، یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک تیار بیٹھا ہے۔ دوسرا یہ کہ ’’قَعِيْدٌ‘‘ ’’فَعِيْلٌ‘‘ کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے اور ’’فَعِيْلٌ‘‘ اور ’’فَعُوْلٌ‘‘ واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث سب کے لیے اسی طرح استعمال کر لیا جاتا ہے۔ دونوں جواب درست ہیں۔