وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا فَأَنبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ
اور ہم نے آسمان سے ایک بہت بابرکت پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ باغات اور کاٹی جانے والی (کھیتی) کے دانے اگائے۔
1۔ وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا:’’ مَآءً مُّبٰرَكًا ‘‘ وہ پانی جس میں بہت برکت یعنی خیرِ کثیر رکھی گئی ہے۔ یہاں باب مفاعلہ مشارکت کے لیے نہیں بلکہ مبالغہ کے لیے ہے۔ جس پانی کو اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے اس کی خیر کی کثرت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے۔ موت کے بعد زندگی کے اثبات کے لیے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی چیزوں کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد اب بارش کا اور اس کی برکت سے زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کا ذکر فرمایا۔ مقصود اس سے بھی موت کے بعد زندگی کا اثبات ہے، چنانچہ آخر میں فرمایا : ﴿كَذٰلِكَ الْخُرُوْجُ ﴾ [ قٓ : ۱۱ ] ’’اسی طرح (دوبارہ زندہ ہو کر ) نکلنا ہے۔‘‘ آسمان سے پانی اتارنے کے لیے باب تفعیل ’’ نَزَّلْنَا ‘‘ استعمال فرمایا جس میں تدریج ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بارش کے قطروں کے بجائے کروڑوں اربوں ٹن پانی دفعتاً گرا دے تو زمین پر کوئی چیز باقی ہی نہ رہے۔ 2۔ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِيْدِ: ’’حَصَدَ يَحْصُدُ حَصْدًا وَ حِصَادًا‘‘ (ن) کھیتی کاٹنا۔ ’’ الْحَصِيْدِ ‘‘ بمعنی ’’اَلْمَحْصُوْدُ‘‘ کاٹی ہوئی کھیتی۔ بارش سے پیدا ہونے والی چیزیں دو قسم کی ہیں، کچھ وہ جن کے درخت باقی رہتے ہیں اور ان کے پھل پھول، گوند، پتوں، ٹہنیوں اور لکڑی وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور کچھ وہ جنھیں کاٹ کر ان سے غلہ، دالیں، سبزیاں، ادویات اور بے شمار مفید چیزیں حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں خصوصاً پھل دار درختوں اور غلہ جات کا ذکر فرمایا، کیونکہ یہ دوسری اشیاء پر برتری رکھتے ہیں اور انسان اور اس کے پالتو جانوروں کی خوراک بنتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ ﴾ [ النازعات : ۳۳ ] ’’تمھاری اور تمھارے چوپاؤں کی زندگی کے سامان کے لیے۔ ‘‘