بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَّرِيجٍ
بلکہ انھوں نے سچ کو جھٹلادیا جب وہ ان کے پاس آیا۔ پس وہ ایک الجھے ہوئے معاملے میں ہیں۔
1۔ بَلْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ: یعنی صرف یہی نہیں کہ ان لوگوں نے اپنی جنس میں سے رسول کی آمد کو اور دوبارہ زندہ کیے جانے کو عجیب قرار دیا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جب ان کے پاس حق آیا تو اسے سنتے ہی کسی غور و فکر کے بغیر جھٹلا دیا۔ 2۔ فَهُمْ فِيْ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ: ’’مَرَجَ الْأَمْرُ، أَيْ اِضْطَرَبَ وَالْتَبَسَ وَ فَسَدَ‘‘ ’’ اَمْرٍ مَّرِيْجٍ ‘‘ الجھا ہوا معاملہ۔ یعنی سوچے سمجھے بغیر جھٹلا دینے کے بعد اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ وہ انھیں جھٹلانے کا کیا جواز پیش کریں، اس لیے وہ کبھی ایک بات کرتے ہیں کبھی دوسری۔ ایک بات پر انھیں قرار نہیں ہے اور وہ سخت ذہنی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر کہتے ہیں، کبھی کاہن، کبھی مجنون (پاگل) اور کبھی ساحر۔ اسی طرح قرآن کو کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تصنیف کیا ہوا کلام کہتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ کوئی عجمی شخص انھیں سکھا جاتا ہے اور کبھی اسے جادو کہہ دیتے ہیں۔ الغرض، ہر موقع پر کوئی نہ کوئی بات گھڑ لیتے ہیں۔