سورة الحجرات - آیت 12

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بہت سے گمان سے بچو، یقیناً بعض گمان گناہ ہیں اور نہ جاسوسی کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا ....: پچھلی آیت میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات خراب کرنے والی ایسی چیزوں سے منع فرمایا تھا جو ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں، یعنی مذاق اڑانا، عیب لگانا اور برے نام سے پکارنا، اب ان تین چیزوں سے منع فرمایا جو دوسرے بھائیوں سے تعلق رکھتی ہیں مگر انھیں ان کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہیں بدگمانی، جاسوسی اور غیبت۔ یہ تینوں کام انتہائی کمینگی اور بزدلی کے کام ہیں، کیونکہ انھیں کرنے والے میں جرأت ہی نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کے سامنے آ سکے۔ یہ اس سورت کی پانچویں آیت ہے جس کا آغاز ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ‘‘ سے ہوا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ تینوں کام ایمان اور اس کے دعوے کے منافی ہیں، اس لیے ان سے بچ جاؤ۔ اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ ....: پہلی بات یہ فرمائی کہ اس چیز سے بچو کہ کسی کے متعلق جو سنو یا دیکھو اس سے اس کے متعلق برا گمان ہی قائم کر لو، بلکہ جہاں تک ہو سکے مومن کے تمام اقوال و اعمال کے متعلق اچھا گمان رکھنے کی کوشش کرو، کیونکہ بعض گمان بالکل بے بنیاد اور گناہ ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادہ گمان سے بچو، کیونکہ اس کا نتیجہ ایسے گمانوں میں پڑ جانا ہے جو گناہ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے بعض گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے، سب گمانوں کو نہیں، کیونکہ ظن کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک ظن غالب ہے، جو کسی دلیل یا مضبوط علامت کے ساتھ قوی ہو جائے، اس پر عمل کرنا درست ہے۔ شریعت کے اکثر احکام اس پر مبنی ہیں اور دنیا کے تقریباً تمام کام اسی پر چلتے ہیں، مثلاً عدالتوں کے فیصلے، گواہوں کی گواہی، باہمی تجارت، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے سے اطلاعات اور خبرِ واحد کے راویوں کی روایات۔ ان سب چیزوں میں غور وفکر، جانچ پڑتال اور پوری کوشش سے حاصل ہونے والا علم بھی ظن غالب ہے، مگر اس پر عمل واجب ہے۔ اسے ظن اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی مخالف جانب کا یعنی اس کے درست نہ ہونے کا نہایت ادنیٰ سا امکان رہتا ہے، مثلاً ہو سکتا ہے کہ گواہ کی گواہی درست نہ ہو، اطلاع دینے والا جھوٹ بول رہا ہو، یا راوی کو غلطی لگی ہو، مگر اس امکان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس امکان پر جائیں تو دنیا کا کوئی کام ہو ہی نہ سکے۔ اس لیے اپنی پوری کوشش کے بعد دلائل سے جو علم حاصل ہو اس پر بھی اگرچہ ظن کا لفظ بول لیا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ علم ہی ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ ظن کی ایک قسم یہ ہے کہ کسی وجہ سے دل میں ایک خیال آ کر ٹھہر جاتا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ دلیل نہ ہونے کی وجہ سے دل میں اس کے ہونے یا نہ ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے، اسے شک بھی کہتے ہیں، یا اس کے ہونے کا امکان اس کے نہ ہونے کے امکان سے کم ہوتا ہے، یہ وہم کہلاتا ہے۔ ظن کی یہ صورتیں مذموم ہیں اور ان سے اجتناب واجب ہے۔ ’’ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘‘ (بے شک بعض گمان گناہ ہیں) سے یہی مراد ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا ﴾ [ یونس : ۳۶ ] (بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا) اور اللہ کے فرمان : ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ﴾ [ النجم : ۲۳ ] ( یہ لوگ صرف اپنے گمان کی اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں) میں اسی ظن کا ذکر ہے اور اسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ )) [ بخاري، الأدب، باب : ﴿یأیھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن....﴾: ۶۰۶۶ ] ’’گمان سے بچو! کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ اسے سب سے جھوٹی بات اس لیے کہا گیا کہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق بدگمانی کرتا ہے تو وہ دلیل کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ شخص ایسا ایسا ہے۔ چونکہ حقیقت میں وہ شخص ایسا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے اس فیصلے کو جھوٹ کہا گیا ہے اور سب سے بڑا جھوٹ اس لیے کہ اس نے بغیر کسی قرینے یا سبب کے محض نفس یا شیطان کے کہنے پر اسے براقرار دے لیا، جب کہ اس کے برے ہونے کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ 3۔ آیت میں ایسے گمان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے دلیل ہو، مثلاً ایک آدمی جو ظاہر میں صالح ہے، اس کے عیوب پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے، عام مشاہدہ میں وہ عفیف اور امانت دار ہے اور اس کے بددیانت یا گناہ گار ہونے کی کوئی دلیل یا علامت موجود نہیں، اس کے متعلق بدگمانی کرنا حرام ہے۔ ہاں، اگر گمان کرنے کی کوئی واقعی دلیل یا علامت موجود ہے تو اس وقت گمان منع نہیں۔ مثلاً ایک شخص کا اٹھنا بیٹھنا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہے جو چوری یا زنا کے ساتھ معروف ہیں، یا رات کو وہاں پھرتا ہے جہاں اس کا کوئی کام نہیں، اس کے متعلق گمان پیدا ہونا فطری بات ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر گمان سے منع نہیں فرمایا، بلکہ فرمایا : ﴿اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ﴾ ’’بہت سے گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں فرمایا : ’’بَابُ مَا يَجُوْزُ مِنَ الظَّنِّ‘‘ ’’وہ گمان جو جائز ہیں۔‘‘ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَظُنُّ فُلاَنًا وَ فُلاَنًا يَعْرِفَانِ مِنْ دِيْنِنَا شَيْئًا قَالَ اللَّيْثُ كَانَا رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُنَافِقِيْنَ )) [ بخاري، الأدب، باب ما یجوز من الظن ....: ۶۰۶۷ ] ’’میں فلاں اور فلاں کے متعلق گمان نہیں کرتا کہ وہ ہمارے دین میں سے کچھ بھی جانتے ہیں۔‘‘ لیث نے فرمایا : ’’یہ دونوں آدمی منافق تھے۔‘‘ اس جائز گمان سے مراد وہ گمان ہے جس کی علامات یا دلیلیں واضح ہوں۔ 4۔ جس طرح دوسرے مسلمان کے حق میں بدگمانی کرنا منع ہے اسی طرح خود مسلمان کو بھی لازم ہے کہ ایسے ہر کام سے اجتناب کرے جس سے کسی کے دل میں اس کے متعلق برا گمان پیدا ہو۔ علی بن حسین بیان کرتے ہیں کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صفیہ رضی اللہ عنھا نے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کے پاس تھیں۔ وہ جانے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا : ’’جلدی نہ کرنا، یہاں تک کہ میں تمھارے ساتھ جاؤں۔‘‘ ان کا مکان اسامہ کی حویلی میں تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو آپ کو دو انصاری ملے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: (( تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ)) ’’ادھر آؤ! یہ (میری بیوی) صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا : ’’سبحان اللہ! یا رسول اللہ! (بھلا ہم آپ کے متعلق برا گمان کر سکتے ہیں)۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِيْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَ إِنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ يُلْقِيَ فِيْ أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا )) [ بخاري، الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا في اعتکافہ : ۲۰۳۸ ] ’’شیطان انسان میں خون کے پھرنے کی طرح پھرتا ہے، تو میں ڈرا کہ وہ تمھارے دلوں میں کوئی بات ڈال دے۔‘‘ وَ لَا تَجَسَّسُوْا:’’جَسَّ يَجُسُّ جَسًّا‘‘ (ن) کسی چیز کو معلوم کرنے کے لیے ہاتھ سے ٹٹولنا، تجسس، جاسوسی کرنا، خفیہ باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرنا۔ جاسوسی برے گمان کا لازمی نتیجہ ہے، کیونکہ آدمی جب کسی کے متعلق دل میں برا گمان قائم کر لیتا ہے تو اسے ثابت کرنے کے لیے اس کی جاسوسی کرتا ہے اور اس کے ان عیوب کی ٹوہ میں رہتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے پردہ ڈال رکھا ہے، تاکہ یہ اپنے گمان کو سچا ثابت کر سکے۔ یہ ایمانی مودّت و اخوت کے سراسر خلاف ہے۔ جب مسلمان بھائی کے ان عیوب پر بھی پردہ ڈالنے کا حکم ہے جو آدمی کو معلوم ہوں تو ان عیوب کی ٹوہ لگانا کیسے جائز ہو سکتا ہے جو محض اس کے گمان کی پیداوار ہیں، یا جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوْا، وَلاَ تَجَسَّسُوْا، وَلاَ تَنَاجَشُوْا، وَلاَ تَحَاسَدُوْا، وَلاَ تَبَاغَضُوْا، وَلاَ تَدَابَرُوْا، وَكُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰهِ إِخْوَانًا )) [ بخاري، الفرائض، باب تعلیم الفرائض :۶۰۶۶، ۶۷۲۴ ] ’’گمان سے بچو! کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو، نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَا مَعْشَرَ مَنْ آمَنَ بِلِسَانِهِ وَلَمْ يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ قَلْبَهُ ! لاَ تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِيْنَ وَلاَ تَتَّبِعُوْا عَوْرَاتِهِمْ فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعِ اللّٰهُ عَوْرَتَهُ، وَ مَنْ يَتَّبِعِ اللّٰهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِيْ بَيْتِهٖ )) [ أبوداؤد، الأدب، باب في الغیبۃ : ۴۸۸۰، قال الألباني حسن صحیح ] ’’اے ان لوگوں کی جماعت جو اپنی زبان کے ساتھ ایمان لائے ہیں اور ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا ! مسلمانوں کی غیبت مت کرو اور نہ ہی ان کے چھپے ہوئے عیبوں کا پیچھا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کا پیچھا کرے گا اور جس کے عیبوں کا پیچھا اللہ تعالیٰ کرے وہ اسے اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔‘‘ بعض اوقات آدمی اصلاح کی نیت سے جاسوسی کرتا ہے، مگر یہ اصلاح کا طریقہ نہیں، اس سے باہمی عداوت پیدا ہوتی ہے اور خرابی بڑھتی ہے، اصلاح نہیں ہوتی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے : (( إِنَّكَ إِنِ اتَّبَعْتَ عَوْرَاتِ النَّاسِ أَفْسَدْتَهُمْ أوْكِدْتَ أَنْ تُفْسِدَهُمْ )) ’’یقیناً جب تو لوگوں کے عیبوں کا پیچھا کرے گا تو انھیں خراب کر دے گا ‘‘ یا فرمایا : ’’قریب ہے تو انھیں خراب کر دے۔‘‘ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ ایسی بات تھی جو معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور اللہ تعالیٰ نے انھیں اس کے ساتھ نفع دیا (کہ انھوں نے بیس سال شام کی امارت کی اور بیس سال پورے عالمِ اسلام پر خلافت کی اور رعایا کو ان سے کوئی خاص شکایت پیدا نہیں ہوئی)۔‘‘ [ أبوداؤد، الأدب، باب في النھي عن التجسس : ۴۸۸۸، و قال الألباني صحیح ] 6۔ جس طرح کوئی دلیل یا قرینہ موجود ہو تو بدگمانی کی گنجائش ہے اسی طرح اسلام کے دشمنوں کی جاسوسی یا امن و امان کی خرابی کا باعث بننے والوں کی جاسوسی بھی جائز ہے، بلکہ مسلم حکمران پر لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کے حالات سے واقف رہے اور اللہ کی حدود کو پامال کرنے والوں کا سدِباب کرتا رہے، مگر اس کے لیے کسی طرح جائز نہیں کہ محض گمان کی بنا پر تجسس یا کوئی کارروائی کرے۔ وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا:’’ لَا يَغْتَبْ ‘‘ (غ، ی، ب) سے باب افتعال ہے : ’’اِغْتَابَ يَغْتَابُ اِغْتِيَابًا ‘‘ کسی کے غائب ہونے کی حالت میں اس کی وہ بات کرنا جس کا ذکر اسے ناپسند ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَتَدْرُوْنَ مَا الْغِيْبَةُ ؟ )) ’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ )) ’’تمھارا اپنے بھائی کا ذکر ایسی چیز کے ساتھ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔‘‘ عرض کیا گیا: ’’آپ یہ بتائیں کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں (تو کیا پھر بھی غیبت ہے)؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ وَ إِنْ لَمْ يَكُنْ فِيْهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ )) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الغیبۃ : ۲۵۸۹ ] ’’اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ چیز اس میں موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ: اس جملے میں غیبت سے کئی طریقوں سے شدید نفرت دلائی گئی ہے۔ چنانچہ اس میں غیبت کے ساتھ کسی بھائی کی عزت و آبرو تار تار کرنے کو انسان کا گوشت کھانا قرار دیا، پھر کسی دوسرے انسان کا نہیں بلکہ اپنے بھائی کا اور وہ بھی زندہ کا نہیں بلکہ مردہ بھائی کا۔ پھر ایسی شدید قابل نفرت چیز سے محبت کرنے کی عار دلاتے ہوئے پوچھا کہ اتنی گندی اور مکروہ چیز سے تو شدید نفرت ہونی چاہیے تھی، تو کیا تم نفرت کے بجائے اس سے محبت کرتے ہو۔ پھر ’’ اَحَدُكُمْ ‘‘ فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایک یہ پسند کرتا ہے؟ مطلب یہ کہ لاکھوں کروڑوں میں سے کوئی ایک بھی یہ پسند نہیں کرے گا تو تم میں سے کوئی ایک یہ کام کیوں کرے!؟ فَكَرِهْتُمُوْهُ: یعنی اگر تمھارے سامنے یہ چیز پیش کی جائے تو یقیناً تم اس سے نفرت کرو گے۔ 10۔ غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے ساتھ تشبیہ اس لیے دی ہے کہ جس طرح مردہ اپنا گوشت کھانے سے کسی کو ہٹا نہیں سکتا اسی طرح جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہ ہونے کی وجہ سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ 11۔ جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسے سننا بھی حرام ہے، کیونکہ سننے والا بھی غیبت میں برابر کا شریک ہے، اگر وہ خاموش رہ کر تائید نہ کرے تو غیبت کرنے والے کو اس کام کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی۔ دونوں ہی اپنے مردہ بھائی کے گوشت سے لذت حاصل کر رہے ہیں، ایک غیبت کر کے اور دوسرا اسے سن کر۔ اس لیے غیبت سننے سے بھی بہت پرہیز کرنا چاہیے، بلکہ اپنے مسلم بھائی کی عزت کا دفاع کرتے ہوئے غیبت کرنے والے کو اس سے منع کرنا چاہیے۔ 12۔ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ: یعنی اللہ کا ڈر ہی ہے جو ان کاموں سے آدمی کو باز رکھ سکتا ہے جن سے ان آیات میں منع فرمایا گیا ہے، وہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے اللہ سے ڈرو اور ان تمام گناہوں سے توبہ کرو، یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ 13۔ نووی نے ’’الاذکار‘‘ میں غیبت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’خواہ وہ چیز اس کے بدن سے تعلق رکھتی ہو یا دین سے یا دنیا سے، اس کی شکل و صورت کے بارے میں ہو یا اخلاق کے، اس کے مال، اولاد، والدین اور بیوی بچوں کے متعلق ہو یا اس کے لباس، چال ڈھال، بول چال، خندہ پیشانی یا ترش روئی کے متعلق، غرض اس سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کا ذکر جو اسے ناپسند ہو غیبت ہے۔ پھر خواہ یہ ذکر زبان سے کیا جائے یا تحریر سے، اشارے سے ہو یا کنائے سے، تمام صورتوں میں غیبت ہے۔ اشارہ خواہ آنکھ سے ہو یا ہاتھ سے، سر کے ساتھ ہو یا جسم کے کسی حصے کے ساتھ، غیبت میں شامل ہے۔‘‘ بدن کی غیبت مثلاً اس کی تنقیص کے لیے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، ٹھگنا، لمبوترا، کالا، کبڑا یا اس قسم کا کوئی اور لفظ استعمال کرے۔ دین کے بارے میں غیبت یہ ہے کہ اسے فاسق، چور، خائن، ظالم، نمازمیں سست، پلید، ماں باپ کا نافرمان یا بدمعاش وغیرہ کہے۔ دنیا کے بارے میں مثلاً اسے نکما، باتونی، پیٹو وغیرہ کہے۔ اخلاق کے متعلق مثلاً اسے بدخلق، متکبر، ریا کار، جلد باز، بزدل یا سٹریل قرار دے۔ اس کے والد کے متعلق مثلاً جولاہا، موچی، کالا، حبشی وغیرہ کہہ کر اس کی تنقیص کرے۔ پھر زبان، ہاتھ اور جسم کے ساتھ غیبت کی ایک صورت اس کی نقل اتارنا ہے، مثلاً اس کے اٹک اٹک کر بات کرنے یا ناک میں بولنے کی، لنگڑا کر چلنے کی، کبڑا ہونے کی یا چھوٹے قد کا ہونے کی نقل اتارے۔ غرض قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی حرکت جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تنقیص ہو غیبت ہے اور حرام ہے۔ 14۔ بعض اوقات کسی مسلم بھائی کی غیبت جائز بھی ہو جاتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں اس کا عیب بیان کیا جا سکتا ہے۔ قاعدہ اس کا یہ ہے کہ جب دین کا کوئی ضروری مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہو سکتا ہو تو اس وقت یہ جائز ہے۔ نووی نے اور ان سے پہلے غزالی نے غیبت کے جواز کے چھ مواقع گنوائے ہیں : (1) ظلم پر فریاد، یعنی مظلوم کو حق ہے کہ ظالم کے خلاف بات کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ﴾ [ النساء : ۱۴۸ ] ’’اللہ بری بات کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا جائے۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالاً )) [ بخاري، الاستقراض، باب استقراض الإبل : ۲۳۹۰ ] ’’یقیناً حق والے کو بات کرنے کی گنجائش ہے۔‘‘ بہتر یہ ہے کہ وہ بادشاہ یا قاضی یا کسی ایسے شخص کے پاس اپنی مظلومیت کا تذکرہ کرے جو اس کی مدد کر سکتا ہو۔ (2) کسی گناہ یا برے کام سے روکنے کے لیے ایسے لوگوں کو اطلاع دینا جو اس کے ساتھ مل کر یا خود اسے روک سکیں۔ اگر مقصد صرف اس کام کرنے والے کی تذلیل ہو تو یہ جائز نہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آیات و احادیث اس کی دلیل ہیں۔ (3) فتویٰ لینے کے لیے مفتی کے سامنے کسی کا نقص ذکر کرے تو یہ جائز ہے، مثلاً ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنھا نے اپنے خاوند ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا : ’’ابو سفیان بخیل آدمی ہے ( مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو) تو کیا مجھ پر کوئی گناہ تو نہیں اگر میں اس کے علم کے بغیر اس کے مال میں سے کچھ لے لوں؟‘‘ آپ نے فرمایا : (( خُذِيْ أَنْتِ وَ بَنُوْكِ مَا يَكْفِيْكِ بِالْمَعْرُوْفِ )) [ بخاري، البیوع، باب من أجری أمر الأمصار....: ۲۲۱۱،۵۳۶۴ ] ’’تمھارے اور تمھارے بچوں کے لیے جتنا کافی ہو معروف طریقے کے ساتھ لے لیا کرو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند رضی اللہ عنھا کو اپنے خاوند کا عیب بیان کرنے پر منع نہیں فرمایا، کیونکہ اس کا مقصد مسئلہ پوچھنا تھا۔ (4) مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اور انھیں شر سے بچانے کے لیے کسی کی برائی سے آگاہ کرے تو یہ جائز ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، آپ نے فرمایا: (( اِئْذَنُوْا لَهُ، بِئْسَ أَخُو الْعَشِيْرَةِ )) [ بخاري، الأدب، باب ما یجوز من اغتیاب ....: ۶۰۵۴ ] ’’اسے اجازت دے دو، یہ خاندان کا برا آدمی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنھا کو اس شخص کی برائی سے آگاہ کرنا ضروری خیال کیا۔ مسلمانوں کی خیر خواہی میں اور انھیں شر سے بچانے میں بہت سی چیزیں آ جاتی ہیں، مثلاً حدیث کے راویوں پر اور مقدمے کے گواہوں پر جرح جائز بلکہ واجب ہے اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ دوسرے جب کوئی شخص کسی کے ساتھ رشتہ کرنے یا امانت رکھنے یا مشارکت کرنے یا ہمسائیگی اختیار کرنے، کاروبار یا کوئی اور معاملہ کرنے کے متعلق مشورہ پوچھے تو صحیح صحیح بات بتا دے۔ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا نے معاویہ اور ابوجہم رضی اللہ عنھما میں سے کسی ایک کے ساتھ نکاح کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَّا أَبُوْ جَهْمٍ فَلاَ يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوْكٌ لَا مَالَ لَهُ، انْكِحِيْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ )) [ مسلم، الطلاق، المطلقۃ البائن لا نفقۃ لھا : ۱۴۸۰ ] ’’ابوجہم تو عورتوں کو بہت مارتا ہے اور معاویہ کنگال آدمی ہے، اس کے پاس کچھ نہیں ہے، تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔‘‘ اور صحیح مشورہ دینا مومن کا حق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَ إِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ )) [ مسلم، السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام :5؍2162] ’’اور جب وہ تم سے مشورہ مانگے تو اس کی خیر خواہی کر۔‘‘ (5) جو شخص کھلم کھلا اللہ کی نافرمانی کرتا ہو، لوگوں کو لوٹتا ہو، علانیہ شراب پیتا ہو تو اس کے ان گناہوں کا ذکر جائز ہے جن کو چھپانے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا اور جن کا ذکر کیا جائے تو اسے برا محسوس ہی نہیں ہوتا، کیونکہ غیبت ان چیزوں کا ذکر ہے جسے وہ ناپسند کرے۔ (6) کوئی شخص کسی لقب کے ساتھ مشہور ہو، اس کے بغیر اس کی پہچان نہ ہوتی ہو اور وہ اسے برا بھی نہ جانتا ہو تو اسے اس لقب سے ذکر کرنا جائز ہے، خواہ اس میں اس کا کوئی نقص ہی بیان ہو رہا ہو، مثلاً اعمش (جس کی آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوں)، اعرج (لنگڑا)، اصمّ (بہرا) اور اعمیٰ (نابینا) وغیرہ۔ شرط یہ ہے کہ مقصد اس کی تنقیص نہ ہو۔ 15۔ قرآن مجید کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا ﴾ کہ مسلمان ایک دوسرے کی غیبت نہ کریں۔ اسی طرح ’’ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ‘‘ سے بھی ظاہر ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت ناجائز ہے، کیونکہ کافر ہمارا دینی بھائی نہیں، اس لیے اس کی غیبت میں کوئی گناہ نہیں۔