الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
وہ جنھوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا، اس کے بعد کہ انھیں زخم پہنچا، ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے نیکی کی اور متقی بنے بہت بڑا اجر ہے۔
یہ حمراء الاسد، یعنی جنگ احد سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ احد سے پلٹ کر جب مشرکین چند منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کا پوری طرح خاتمہ کیے بغیر واپس چلے آئے۔ چنانچہ وہ مدینے پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ نے مسلمانوں کو مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا، تاکہ وہ واقعی پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کر دیں۔ اس وقت اگرچہ شرکائے احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے تھے لیکن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد (نامی جگہ) پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انھوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں، اگلے سال پھر آئیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ چنانچہ آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کو بشارت ہے۔ (ابن کثیر) عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے عروہ سے کہا : ’’اے میرے بھانجے! تیرے دونوں باپ زبیر (والد) اور ابو بکر (نانا) بھی ان میں شامل تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد میں وہ تکالیف پہنچیں جو پہنچیں اور مشرکین واپس چلے گئے تو آپ نے خوف محسوس کیا کہ وہ پلٹ نہ آئیں تو فرمایا : ’’ان کے پیچھے کون جائے گا؟‘‘ تو ان میں سے ستر آدمیوں نے لبیک کہا، ان میں ابوبکر اور زبیر بھی تھے۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب :﴿الذین استجابوا للہ والرسول﴾ : ۴۰۷۷، عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ]