يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: رازی نے فرمایا : ’’اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مکارمِ اخلاق کا سبق دیا ہے، ان کا تعلق یا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملے میں ہو گا یا اس کے رسول کے ساتھ یا فاسق لوگوں کے ساتھ یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو حاضر ہوں یا ان ایمان والوں کے ساتھ جو غائب ہوں اور پانچوں قسموں میں سے ہر ایک کی ابتدا ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کے ساتھ کی ہے۔‘‘ 2۔ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: ’’لَا تُقَدِّمُوْا‘‘باب تفعیل ہے، جس کا مجرد’’قَدَمَ يَقْدُمُ‘‘(ن) آتا ہے، جس کا معنی ’’دوسرے کے آگے چلنا‘‘ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے متعلق فرمایا: ﴿يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ﴾ [ھود:۹۸] ’’وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے ہو گا۔‘‘ ’’ تَقَدَّمَ يَتَقَدَّمُ‘‘ (تفعّل) کا معنی بھی ’’آگے بڑھنا‘‘ ہے۔ باب تفعیل کے لحاظ سے اس کا معنی ’’آگے کرنا‘‘ ہو گا، یعنی اپنی کوئی بات یا کوئی فعل اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ کرو۔ بعض اوقات ’’قَدَّمَ‘‘ ’’تَقَدَّمَ‘‘ کے معنی میں بھی آ جاتا ہے، یعنی وہ آگے بڑھا، جیسے ’’ كَأَنَّهُ قَدَّمَ نَفْسَهُ ‘‘ ’’گویا اس نے اپنے آپ کو آگے بڑھا لیا۔‘‘ اس صورت میں آیت کا معنی ہو گا : ’’اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔‘‘ اور یہاں یہی معنی راجح ہے۔ اسی سے ’’مُقَدِّمَةُ الْجَيْشِ‘‘ (لشکر کا سب سے اگلا حصہ) ہے۔ باب تفعیل باب تفعّل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے ’’وَجَّهَ أَيْ تَوَجَّهَ‘‘ اور ’’ بَيَّنَ أَيْ تَبَيَّنَ۔‘‘ آیت میں اس شخص کو جو اللہ اور اس کے رسول کی اجازت یا حکم کے بغیر کوئی کام یا بات کرتا ہے اس شخص کی حالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر اس سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ (ابن عاشور) 3۔ ’’ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ‘‘ میں اللہ اور اس کے رسول کو اکٹھا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول سے آگے بڑھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے آگے بڑھنا ہے، کیونکہ رسول وہی کہتا اور کرتا ہے جس کی وحی اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے، فرمایا: ﴿وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى (3) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ﴾ [ النجم: ۳،۴ ]’’اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔‘‘ 4۔ اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا بنیادی تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ جب تم اللہ کو اپنا رب اور رسول کو اپنا ہادی اور رہبر مانتے ہو تو پھر ان کے پیچھے چلو، آگے مت بڑھو! اپنے فیصلے خود ہی نہ کر لو، بلکہ پہلے یہ دیکھو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم سورۂ احزاب میں موجود حکم سے بھی ایک قدم آگے ہے، فرمایا : ﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ﴾ [ الأحزاب : ۳۶ ] ’’اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا، واضح گمراہ ہونا۔ ‘‘ یعنی سورۂ احزاب میں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو کسی ایمان والے مرد یا ایمان والی عورت کو خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا اور یہاں فرمایا کہ ایمان والوں کو پہل کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود نہیں کر لینے چاہییں، بلکہ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے متعلق اللہ اور اس کے رسول کا حکم کیا ہے۔ یہ حکم مسلمانوں کے انفرادی معاملات میں بھی ہے اور اجتماعی معاملات میں بھی۔ کسی بھی شخص کو خواہ وہ کوئی عالم ہو یا امام یا پیر فقیر، یہ حق حاصل نہیں اور نہ ہی کسی جماعت یا پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ اپنی طرف سے شریعت بنائے، کسی کام کو حلال یا حرام کہے، یا باعثِ ثواب یا گناہ قرار دے۔ اگر کوئی کسی کو یہ حق دیتا ہے تو وہ اسے اپنا رب بناتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ کی آیت (۳۱) : ﴿ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾ کی تفسیر۔ 5۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت سے آگے مت بڑھو، ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ چنانچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے : (( ﴿ لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ يَقُوْلُ لَا تَقُوْلُوْا خِلاَفَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ )) [ طبري : ۳۱۹۲۷ ] یعنی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے خلاف کوئی بات نہ کہو۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی شان نزول رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھنا بیان کی ہے اور بعض نے عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے قربانی کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام کام اس آیت کے مضمون میں شامل ہیں، البتہ یہ بات ثابت نہیں کہ یہ آیت خاص ان کے بارے میں اتری ہے۔ 6۔ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ:’’ اِنَّ ‘‘ تعلیل یعنی پہلی بات کی وجہ بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر کام کو جاننے والا ہے، خواہ وہ سب کے سامنے کیا جائے یا چھپ کر، عمل میں آ چکا ہو یا دل میں اس کا ارادہ ہو، اگر تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھو گے تو اُس سے تمھارا جرم چھپا نہیں رہے گا اور وہ تمھیں اس کی سزا دے گا۔