وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا
اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا جنھیں تم حاصل کرو گے، پھر اس نے تمھیں یہ جلدی عطا کردی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تاکہ یہ ایمان والوں کے لیے ایک نشانی بنے اور (تاکہ) وہ تمھیں سیدھے راستے پر چلائے۔
1۔ وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا: ان بہت سی غنیمتوں سے مراد صلح حدیبیہ، خیبر اور اس کے اردگرد کے علاقوں اور بستیوں کی فتح ہے، کیونکہ اس سے پہلے گزر چکا ہے : ﴿ سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْكُمْ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلٰمَ اللّٰهِ قُلْ لَّنْ تَتَّبِعُوْنَا كَذٰلِكُمْ قَالَ اللّٰهُ مِنْ قَبْلُ فَسَيَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا بَلْ كَانُوْا لَا يَفْقَهُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ [ الفتح : ۱۵ ] ’’عنقریب پیچھے چھوڑ دیے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوںکی طرف چلو گے، تا کہ انھیں لے لو ،ہمیں چھوڑو کہ ہم تمھارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔ ‘‘ 2۔ فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ: تو اس نے تمھیں ان غنیمتوں میں سے یہ صلح حدیبیہ جلدی عطا فرما دی جس میں تمھارے اور قریش کے درمیان معاہدہ ہو گیا کہ دس سال تک جنگ بند رہے گی اور مسلمان آئندہ سال اسی ماہ آ کر عمرہ ادا کریں گے۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کا ایک دوسرے کے پاس آنا جانا، ملنا جلنا شروع ہو گیا اور بے شمار لوگ مسلمان ہوئے، خیبر اور دوسرے علاقوں کی فتح کا دروازہ کھل گیا، غرض یہ صلح فتح بھی تھی اور اپنے بے شمار فوائد کے لحاظ سے غنیمت بھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد فتح خیبر لی ہے، یہ بھی ممکن ہے، مگر پہلی تفسیر زیادہ واضح ہے، کیونکہ یہ آیات حدیبیہ سے واپسی پر اتری ہیں۔ 3۔ وَ كَفَّ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ: مسلمانوں سے لوگوں کے ہاتھ روک دینے میں مسلمانوں کی قلت کے باوجود قریش مکہ کو لڑائی سے روک دینا بھی شامل ہے اور خیبر اور دوسرے علاقوں کے یہود کو مدینہ پر حملہ آور ہونے سے روک دینا بھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ رعب تھا کہ جب مسلمانوں کی پوری جنگی قوت مدینہ سے باہر تھی، اگر اس وقت یہود اپنے حلیفوں اور منافقین کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ آور ہوتے تو ان کے لیے میدان خالی تھا، کیونکہ وہاں عورتوں، بچوں اور معذوروں کے سوا کوئی موجود نہ تھا، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا کہ کسی کو یہ جرأت ہی نہیں ہونے دی۔ 4۔ وَ لِتَكُوْنَ اٰيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ: اس جملے کا واؤ کے ساتھ مقدر جملے پر عطف ہے اور اسے مقدر اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ کئی جملوں میں سے کوئی ایک جملہ ہو سکتا ہے، مثلاً : ’’فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ لِتَشْكُرُوْهُ وَ لِتَكُوْنَ الْمُعَجَّلَةَ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِيْنَ‘‘ ’’یعنی اس نے یہ غنیمت تمھیں جلدی دے دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور تاکہ جلد عطا کی جانے والی یہ غنیمت اور لوگوں کے ہاتھوں کا تم سے روک دیا جانا ایمان والوں کے لیے ایک نشانی بن جائے (کہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح ہماری مدد فرمائے گا)۔‘‘ ’’لِتَشْكُرُوْهُ‘‘ کے بجائے مقدر جملہ ’’لِيَحْصُلَ لَهُمُ السَّكِيْنَةُ‘‘یا ’’لِيَزْدَادُوْا إِيْمَانًا‘‘وغیرہ بھی ہو سکتا ہے اور اسے حذف اسی لیے کیا گیا ہے کہ اگر ذکر کیا جاتا تو ایک آدھ بات ذکر ہو سکتی تھی، حالانکہ وہ بہت سی چیزیں ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ غنیمت پہلے عطا کر دی۔ 5۔ وَ يَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا: یہ جملہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، کیونکہ اہل حدیبیہ میں سے کوئی ایک شخص بھی صراطِ مستقیم سے ادھر ادھر نہیں ہوا، بلکہ سب کے سب آخر دم تک اسلام پر قائم رہے۔