سورة الفتح - آیت 16

قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بدویوں میں سے پیچھے چھوڑے جانے والوں سے کہہ دے عنقریب تم ایک سخت لڑنے والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے، تم ان سے لڑو گے، یا وہ مسلمان ہوجائیں گے، پھر اگر تم حکم مانو گے تو اللہ تمھیں اچھا اجر دے گا اور اگر پھر جاؤ گے، جیسے تم اس سے پہلے پھر گئے تو وہ تمھیں سزا دے گا، درد ناک سزا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ لِّلْمُخَلَّفِيْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ ....: اس آیت میں پیچھے رہنے والے اعراب کو تسلی دلائی ہے کہ آئندہ غزوات میں انھیں شرکت کا اور غنیمتیں حاصل کرنے کا پورا پورا موقع دیا جائے گا، تاکہ انھیں اطمینان ہو جائے کہ انھیں اسلامی لشکر کے ساتھ خیبر میں جانے سے اس لیے منع نہیں کیا گیا کہ وہ اسلام سے نکل گئے ہیں، بلکہ اس کا ایک خاص سبب ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے۔ چنانچہ آئندہ جس طرح دوسرے مسلمانوں کو کفار سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی انھیں بھی دی جائے گی۔ اس آیت میں ان کی اس دل شکنی کا مداوا فرمایا ہے جو خیبر میں شریک نہ کیے جانے سے ہوئی اور ان کے حق میں یہ عظیم خوش خبری بھی دی کہ وہ خیبر سے پیچھے رہ جانے کی کوتاہی کی تلافی کر سکتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے اعراب کے یہ قبائل آئندہ جنگوں مثلاً فتح مکہ، جنگ حنین، جنگ تبوک اور جنگ یمامہ میں شریک ہوئے، ان میں سے کم ہی کوئی شخص ان جنگوں سے پیچھے رہا۔ یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم نہیں ہوئے تھے، کیونکہ اس کے بعد جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین، جو دل میں کفر چھپائے ہوئے تھے، ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا گیا، نہ انھیں آئندہ کسی جنگ میں شرکت کی دعوت دی گئی اور نہ ان کے حق میں یہ اجازت ملی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَاْذَنُوْكَ لِلْخُرُوْجِ فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِيَ اَبَدًا وَّ لَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِيَ عَدُوًّا اِنَّكُمْ رَضِيْتُمْ بِالْقُعُوْدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوْا مَعَ الْخٰلِفِيْنَ (83) وَ لَا تُصَلِّ عَلٰى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ﴾ [ التوبۃ : 84،83] ’’پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لیے) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔ بے شک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، سو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔ ‘‘ سَتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ: جنگ تبوک سے پیچھے رہنے والے منافقین کے برعکس غزوۂ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے اعراب کے متعلق فرمایا کہ آئندہ تمھیں سخت لڑائی والے لوگوں سے جنگ کے لیے بلایا جائے گا۔ ’’ سَتُدْعَوْنَ ‘‘ (عنقریب تمھیں بلایا جائے گا) کا لفظ عام ہے، تاکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کا جنگ کے لیے دعوت دینا بھی شامل ہو جائے۔ ان سخت لڑائی والے لوگوں کے بارے میں مفسرین کے چار اقوال ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ثقیف و ہوازن ہیں جن کے ساتھ جنگِ حنین ہوئی۔ دوسرا یہ کہ اس سے مراد رومی ہیں جن سے جنگ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں سب لوگوں کو ساتھ جانے کی دعوت دی اور بعد میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کے زمانے میں بھی ان سے جنگ ہوئی۔ تیسرا یہ کہ اس سے مراد بنو حنیفہ کے مرتدین ہیں جن سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ کی اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد اہلِ فارس ہیں جن کے ساتھ ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنھما کے زمانے میں جنگ ہوئی۔ امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے اعراب کے ان مخلفین کے متعلق فرمایا کہ انھیں سخت لڑائی والے اور بہادر لوگوں سے لڑنے کی دعوت دی جائے گی اور کسی عقلی یا نقلی دلیل سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے مراد خاص ہوازن ہیں یا بنو حنیفہ یا فارس یا روم۔ ہو سکتا ہے ان سے مراد ان میں سے بعض ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور لوگ ہوں۔ اور اس قول سے زیادہ کوئی قول صحیح نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انھیں ایک سخت لڑنے والی قوم کی طرف بلایا جائے گا، سو اسی پر اکتفا ہونا چاہیے۔‘‘ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ: یعنی تم ان سے لڑو گے یا وہ لڑائی کے نتیجے میں یا لڑائی کے بغیر ہی تابع فرمان ہو جائیں گے، یا جزیہ دینا قبول کر لیں گے۔ بعض مفسرین نے ’’ اَوْ يُسْلِمُوْنَ ‘‘ کا معنی کیا ہے ’’یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘ ان کے مطابق اس آیت میں ان لوگوں سے جنگ کی پیش گوئی ہے جن سے جزیہ لینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ان کے لیے دو ہی راستے تھے کہ یا مسلمان ہو جائیں یا جنگ کے لیے تیار رہیں۔ یہود و نصاریٰ سے بالاتفاق جزیہ لینا درست ہے، ہجر کے مجوس سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جزیہ لینا ثابت ہے۔ البتہ مشرکین عرب کے متعلق سورۂ توبہ(۵) میں یہ حکم اترا کہ ان سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک وہ مسلمان نہ ہو جائیں، ان میں سے کسی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ نہیں لیا۔ ان مفسرین کے قول کے مطابق اس آیت سے مراد ثقیف و ہوازن ہو سکتے ہیں جو جنگ حنین میں قتل ہو گئے یا گرفتار ہونے کے بعد سب کے سب مسلمان ہو گئے، یا بنو حنیفہ کے مرتدین ہیں جن سے اس وقت تک جنگ کی گئی جب تک وہ دوبارہ مسلمان نہیں ہو گئے۔ البتہ پہلے قول کے مطابق ’’ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ‘‘ (تم ان سے لڑو گے یا وہ تابع فرمان ہو جائیں گے) سے مراد ہوازن، روم و فارس، مرتدین اور وہ تمام کفار ہو سکتے ہیں جن سے مسلمان آئندہ جنگ کرنے والے تھے اور یہ قول زیادہ جامع ہے۔ فَاِنْ تُطِيْعُوْا يُؤْتِكُمُ اللّٰهُ اَجْرًا حَسَنًا: یعنی اگر تم ان جنگجو لوگوں سے لڑنے کے حکم کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں بہت اچھا بدلا دے گا، دنیا میں فتح و نصرت اور عزت و غنیمت سے نوازے گا اور آخرت میں جنت عطا کرے گا۔ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُمْ مِّنْ قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا: اور اگر اطاعت سے پھر جاؤ گے، جیسا کہ اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر پھر گئے تھے تو تمھیں درد ناک سزا دے گا کہ دنیا میں ذلت کی زندگی بسر کرو گے اور آخرت میں جہنم میں جاؤ گے۔