سورة الفتح - آیت 9

لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ....: ’’تعزیر‘‘ کا معنی ہے تعظیم کے ساتھ مدد کرنا۔ (راغب) اور ’’توقیر‘‘ وقار سے نکلا ہے، تعظیم کرنا۔اس بات پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ ’’ تُسَبِّحُوْهُ ‘‘ (اس کی تسبیح کرو) سے مراد اللہ تعالیٰ کی تسبیح ہے، کیونکہ تسبیح اللہ کے سوا کسی کی ہو ہی نہیں سکتی۔ اکثر مفسرین کے مطابق اس سے پہلے دونوں الفاظ ’’ تُعَزِّرُوْهُ ‘‘ اور ’’ تُوَقِّرُوْهُ ‘‘ میں بھی ضمیر غائب کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہونا چاہیے، تاکہ تمام ضمیروں میں موافقت رہے۔ مطلب یہ ہو گا : ’’تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (اللہ) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس کی تسبیح کرو۔‘‘ اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ ﴾ [ محمد :۷ ] ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔‘‘ بعض مفسرین نے فرمایا کہ ’’ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ‘‘ میں ضمیر غائب اس سے پہلے ’’ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ‘‘ میں مذکور ’’ رَسُوْلِهٖ ‘‘ کی طرف لوٹ رہی ہے، کیونکہ وہ ’’ تُعَزِّرُوْهُ ‘‘ کے قریب تر ہے، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے ساتھ آپ کی تعزیر و توقیر کا حکم دے کر آخر میں اپنی تسبیح کا حکم دیا۔ اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر و تعزیر کے بیان کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ آگے آپ کی بیعت کو اللہ تعالیٰ سے بیعت قرار دیا۔ مطلب یہ ہو گا : ’’تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس (رسول) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور دن کے شروع اور آخر میں اس (اللہ) کی تسبیح کرو۔‘‘ یہ معنی بھی درست ہے، اگرچہ اس میں ضمیروں میں موافقت نہیں رہتی، مگر قرینہ موجود ہو تو ضمیروں کا اتفاق ضروری نہیں ہوتا۔ اس معنی کی تائید سورۂ اعراف کی آیت سے ہوتی ہے جس میں تعزیر کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آیا ہے، فرمایا : ﴿ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْ اُنْزِلَ مَعَهٗ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ [ الأعراف :۱۵۷ ] ’’سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا، وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘ قرآن و حدیث میں لفظ ’’تعزیر‘‘ قوت دینے یا مدد کرنے کے معنی میں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ ہاں ’’توقیر‘‘ کا مادہ ’’ وَقَارٌ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے سورۂ نوح میں آیا ہے، فرمایا : ﴿مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا ﴾ [نوح : ۱۳ ] ’’تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے نہیں ڈرتے؟‘‘ اس لیے سیاق کے لحاظ سے دوسرا معنی درست ہے، اگرچہ اتحاد ضمائر کی جو خوبی پہلی تفسیر میں موجود ہے وہ دوسری میں نہیں۔