لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَيُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عِندَ اللَّهِ فَوْزًا عَظِيمًا
تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے اور ان سے ان کی برائیاں دور کرے اور یہ ہمیشہ سے اللہ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔
1۔ لِّيُدْخِلَ الْمُؤْمِنِيْنَ ....: سب سے واضح اور صحیح بات یہی ہے کہ ’’ لِيُدْخِلَ ‘‘ کا لام ’’ هُوَ الَّذِيْ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ ‘‘ کے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ’’وہی ہے جس نے مومنوں کے دلوں میں سکینت نازل فرمائی، تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ایمان میں اور زیادہ ہو جائیں (اور) تاکہ اس سکینت اور ایمان کی زیادتی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ان باغوں میں داخل کرے جن کے تلے نہریں چلتی ہیں۔‘‘ 2۔ وَ الْمُؤْمِنٰتِ: مومن عورتوں کا ذکر خاص طور پر یہاں اس لیے فرمایا کہ جہاد کا اجر صرف مردوں کے ساتھ خاص نہ سمجھ لیا جائے، کیونکہ مومن عورتیں بھی جہاد میں شریک ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بھائیوں، خاوندوں، بیٹوں، باپوں اور دوسرے عزیزوں کے جہاد پر نکلنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، ان کی عدم موجودگی میں تنہائی اور دوسری پریشانیوں پر صبر کرتی ہیں اور ان کی شہادت کی صورت میں بیوہ ہونے اور بچوں کے یتیم ہونے پر صبر کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی لشکر کے ساتھ جا کر کھانا پکانے، کپڑے دھونے، صفائی کرنے کی اور دوسری خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ لڑائی کی صورت میں مجاہدوں کو پانی پلانے، زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی تیمار داری کا اہتمام کرتی ہیں۔ (ابن عاشور) 3۔ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ....: جنتوں میں داخل کرنے سے مراد یہاں خاص داخلہ ہے جو مجاہدین کے ساتھ خاص ہے، وہ داخلہ نہیں جو محض ایمان اور عمل صالح کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ساتھ ہی فرمایا : ﴿ وَ يُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ ﴾ ’’اور تاکہ وہ ان سے ان کی برائیاں دور کرے۔‘‘(ابن عاشور) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ فِی الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللّٰهُ لِلْمُجَاهِدِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَا بَيْنَ الدَّرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰهَ فَاسْأَلُوْهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَی الْجَنَّةِ أُرَاهُ قَالَ وَ فَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ )) [بخاري، الجھاد والسیر، باب درجات المجاہدین في سبیل اللّٰہ : ۲۷۹۰ ] ’’جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار فرمائے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے، تو جب تم اللہ تعالیٰ سے مانگو تو فردوس کا سوال کرو، کیونکہ وہ جنت کا افضل اور جنت کا اعلیٰ حصہ ہے۔ (یحییٰ بن صالح نے کہا ) میں سمجھتا ہوں یوں کہا کہ اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔‘‘