إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا
بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔
1۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا: لفظ ’’ فَتْحًا ‘‘ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد فتح مکہ اور اس کے قریب ہونے والی فتوحات ہیں اور یقیناً یہ الفاظ فتح مکہ پر بھی صادق آتے ہیں، مگر صحابہ کرام اور محقق اہل علم نے اس کا سبب نزول صلح حدیبیہ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ قتادہ بیان کرتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ نے ’’ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ‘‘ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ [ بخاري، التفسیر، سورۃ الفتح : ۴۸۳۴ ] اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’تم فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو اور واقعی فتح مکہ فتح تھی مگر ہم حدیبیہ کے دن بیعتِ رضوان کو فتح شمار کرتے ہیں۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ۴۱۵۰ ] زید بن اسلم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک سفر میں چل رہے تھے، رات کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ چل رہے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب نہ دیا، انھوں نے پھر سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا، انھوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’عمر! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے اصرار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ سوال کیا، لیکن ہر بار آپ نے جواب نہیں دیا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، چنانچہ میں اپنی اونٹنی کو حرکت دے کر مسلمانوں سے آگے نکل گیا، اس خوف سے کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نازل نہ ہو جائے۔ کچھ دیر بعد ہی اچانک سنا تو ایک اعلان کرنے والا میرا نام لے کر بلانے کے لیے اعلان کر رہا تھا، میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میرے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔ میں نے سلام کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُوْرَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ، ثُمَّ قَرَأَ : ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ﴾)) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الحدیبیۃ : ۴۱۷۷ ] ’’رات مجھ پر وہ سورت اتری ہے جو مجھے ہر اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا : ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ﴾ ’’بے شک ہم نے تجھے فتح دی، ایک کھلی فتح۔‘‘ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۂ فتح نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا اور انھیں سورۂ فتح پڑھوائی۔ انھوں نے کہا : (( يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! أَوَ فَتْحٌ هُوَ ؟ )) ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((نَعَمْ )) ’’ہاں!‘‘ تو ان کا دل خوش ہو گیا اور وہ چلے گئے۔ [مسلم، الجہاد والسیر، باب صلح الحدیبیۃ ....: ۱۷۸۵] 2۔ حقیقت یہ ہے کہ صلح حدیبیہ اسلام اور مسلمانوں کی عظیم فتح تھی، کیونکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے۔ جن میں سے ایک یہ تھا کہ قریش نے مسلمانوں کا وجود تسلیم کر لیا، جو اس سے پہلے وہ کسی صورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک یہ کہ دشمن کی حقیقی قوت کا اندازہ ہو گیا اور یہ کہ وہ کس حد تک مزاحمت کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں مخلص ایمان والوں اور منافقین کی پہچان ہو گئی، کیونکہ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلنے کی جرأت ہی نہیں کر سکے تھے، جیسا کہ آگے ’’سَيَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ‘‘ میں آ رہا ہے۔ ایک یہ کہ جزیرۂ عرب میں امن قائم ہو جانے سے کفار اور مسلمانوں کا ایک دوسرے سے میل جول شروع ہو گیا۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی بات سنی، ان کے اخلاق دیکھے، آپس میں بحث و مناظرہ ہوا اور دعوت کا دائرہ وسیع ہوا، جس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس سے پہلے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چودہ سو صحابہ آئے تھے، لیکن صرف دو سال بعد فتح مکہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہ کے ساتھ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے۔ 3۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کی تاکید کے ساتھ اس فتح کی اہمیت بیان فرمائی، ایک اس کی عظمت کے اظہار کے لیے اس کی نسبت اپنی طرف دو دفعہ جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ فرمائی، ایک ’’ اِنَّا ‘‘ اور دوسرا ’’ فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا ‘‘ اور دوسری یہ کہ ’’ فَتَحْنَا ‘‘ کی تاکید مفعول مطلق ’’ فَتْحًا مُّبِيْنًا ‘‘ کے ساتھ فرمائی اور تیسری یہ کہ اسے ’’ فَتْحًا مُّبِيْنًا ‘‘ (فتح مبین) قرار دیا، یعنی بے شک ہم نے تیرے لیے فتح دی، ایک کھلی فتح۔ 4۔ ’’ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ ‘‘ میں ’’ لَكَ ‘‘ (تیرے لیے) کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و تشریف کا اظہار ہو رہا ہے، جس سے امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر پہچاننے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کی تعلیم دینا مقصود ہے۔