سورة محمد - آیت 36

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں اور اگر تم ایمان لاؤ اور بچے رہو، تو وہ تمھیں تمھارے اجر دے گا اور تم سے تمھارے اموال نہیں مانگے گا۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ ....: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت کی آیت (۶۴) کی تفسیر۔ جہاد سے روکنے والی سب سے بڑی چیز دنیا کی زندگی، اس کے مال و دولت اور اس کی دل فریبیوں سے محبت ہے، کیونکہ جہاد میں جان و مال دونوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ یہ چند دن کا کھیل اور دل لگی ہے، اس کی محبت میں پھنس کر اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کرو اور یقین رکھو کہ اگر تم ایمان اور تقویٰ اختیار کرو گے، جس میں جان و مال پیش کر دینا بھی شامل ہے تو اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے اجر پورے پورے دے گا اور تم سے تمھارے سارے اموال کا مطالبہ نہیں کرے گا بلکہ ان میں سے معمولی حصے پر اکتفا کرے گا۔ مثلاً سال کے بعد اموال میں سے چالیسواں حصہ، کھیتی میں سے بیسواں یا دسواں حصہ، جنگ کے بعد غنیمت میں سے پانچواں حصہ اور دوسرے پیش آنے والے مواقع پر ضرورت کے مطابق مال کا کچھ حصہ۔ لیکن اگر تم نے ایمان و تقویٰ کے بجائے کفر و عناد پر اصرار کیا تو وہ اپنے مجاہد بندوں کے ذریعے سے تم سے تمھارے سارے اموال چھین لے گا۔ ایمان و تقویٰ کے تقاضے کے مطابق وہ معمولی حصہ جو تم نے خرچ کیا ہے اس کا بھی پورا پورا بدلا وہ تمھیں دنیا اور آخرت میں دے دے گا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں: ’’ حق تعالیٰ نے ملک فتح کر دیے، مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن مال خرچ کرنا پڑا، سو جتنا خرچ کیا تھا اس سے سو سو گنا ہاتھ لگا۔ اسی لیے (قرآن کریم میں کئی جگہ) فرمایا ہے کہ اللہ کو قرض دو۔‘‘ وَ لَا يَسْـَٔلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ: ’’اور تم سے تمھارے اموال نہیں مانگے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ تم سے تمھارے اموال پورے کے پورے نہیں مانگے گا۔ ہاں، وہ تمھارے اموال میں سے ایک حصہ خرچ کرنے کی دعوت ضرور دیتا ہے۔ اس مطلب کے کئی قرینے ان آیات میں موجود ہیں جن میں سے ایک قرینہ ’’ أَمْوَالٌ‘‘ کی اضافت ضمیر ’’كُمْ‘‘ کی طرف ہے۔ ظاہر ہے ’’تمھارے اموال‘‘ میں وہ تمام اموال آ جاتے ہیں جو تمھاری ملکیت ہیں۔ دوسرا قرینہ ’’ يُؤْتِكُمْ اُجُوْرَكُمْ ‘‘ ہے، کیونکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تمھیں تمھارے اجر پورے پورے دے گا۔ تو جس طرح ’’ اُجُوْرَكُمْ ‘‘ سے پورے اجر مراد ہیں اسی طرح ’’ اَمْوَالَكُمْ ‘‘ سے بھی پورے اموال مراد ہیں۔ تیسرا قرینہ اس آیت سے اگلی آیت میں لفظ ’’ فَيُحْفِكُمْ ‘‘ ہے، جس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے ان کے اموال کا ’’إِحْفَاءٌ‘‘ نہیں چاہتا، یعنی پورے نہیں مانگنا۔ ان تمام قرائن کی وجہ سے ’’ لَا يَسْـَٔلْكُمْ اَمْوَالَكُمْ ‘‘ کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ تم سے تمھارے سارے اموال نہیں مانگے گا۔