سورة محمد - آیت 33

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ ....: یعنی اعمال کے قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند رہے۔ اگر کوئی شخص اطاعت سے نکل کر مخالفت پر اتر آئے اور دشمنوں کے ساتھ ساز باز شروع کر دے تو اس کے سارے اعمال باطل ہیں، خواہ وہ اپنے خیال میں کتنے اچھے عمل کرتا رہے، جیسا کہ منافقین تھے کہ انھوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اور عہدِ اطاعت کے بعد مخالفت کا راستہ اختیار کیا۔ یہاں آیت سے یہی مراد ہے، کیونکہ اس سے پہلے بھی منافقین کا ذکر ہے اور بعد میں بھی۔ گویا آیت کا مطلب یہ ہوا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی طرح اپنے اعمال باطل مت کرو جن کے اعمال ان کے کفر اور اللہ کے راستے سے روکنے اور رسول کی مخالفت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے برباد کر دیے۔‘‘ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آدمی کسی نافرمانی یا کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو اس کے پہلے تمام اعمال باطل ہوگئے، کیونکہ یہ اس آیت کے خلاف ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ [النساء:۴۸] ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقیناً اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔‘‘ ہاں آیت کا یہ مطلب ضرور ہو سکتا ہے کہ ہر عمل جس میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہو اور وہ ان کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ ہو وہ باطل ہے، کیونکہ عمل کی قبولیت کے لیے اخلاص اور اتباع سنت شرط ہے، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ )) [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ و رد محدثات الأمور : ۱۸؍۱۷۱۸ ] ’’جو شخص وہ عمل کرے جس پر ہمارا عمل نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ بات نکالی ہے کہ کوئی نفلی عمل، نماز ہو یا روزہ یا کوئی اور، اگر شروع کرے تو اسے پورا کرنا واجب ہے، کیونکہ اگر اسے پہلے چھوڑ دے گا تو اس نے عمل باطل کر دیا مگر یہ بات درست نہیں نہ آیت سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ نفل پہلے بھی نفل ہوتا ہے بعد میں بھی۔ جس کا شروع کرنا واجب نہیں اسے پورا کرنا بھی واجب نہیں۔ تفصیل امہات الکتب میں دیکھیں۔