وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔
1۔ اَوِ ادْفَعُوْا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد میں ایک ہزار کی جمعیت لے کر احد کی طرف چلے، مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت وہاں سے لوٹ آیا۔ لوگوں نے ان سے کہا کہ اگر اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کر سکتے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ رہو، تاکہ کثرت تعداد کا دشمنوں پر اثر پڑے اور وہ آگے بڑھنے کی جرأت نہ کریں۔ اکثر مفسرین نے ”اَوِ ادْفَعُوْا“ کے یہی معنی کیے ہیں، مگر بعض نے یہ معنی بھی کیے ہیں کہ اپنے گھر کی عورتوں اور بچوں کی خاطر ہی لڑائی میں شامل رہو۔ (یہ معنی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے) الغرض! لوگوں نے ہر طرح سے انھیں واپس لانے کی کوشش کی مگر وہ تیار نہ ہوئے اور وہ جواب دیا جو آگے آ رہا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر) 2۔ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا: وہ کہنے لگے، کوئی لڑائی وڑائی نہیں ہو گی، اگر ہمیں واقعی لڑائی کی توقع ہوتی تو ہم ضرور تمھارا ساتھ دیتے، یا مطلب یہ ہے کہ کوئی ڈھب کی جنگ ہوتی اور فریقین میں کچھ تناسب ہوتا تو ہم ضرور شرکت کرتے، مگر اُدھر تین ہزار کا مسلح لشکر ہے اور اِدھر ایک ہزار بے سروسامان آدمی ہیں، یہ کوئی جنگ ہے !؟ یہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس بنا پر ہم ساتھ نہیں دے سکتے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ کلمہ انھوں نے طعن کے طور پر کہا تھا اور مطلب یہ تھا کہ مسلمان فنون حرب سے بالکل نا آشنا ہیں، ورنہ ہماری رائے مان لی جاتی تو مدینہ کے اندر رہ کر مدافعت کی جاتی۔‘‘ (موضح) 3۔ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَىِٕذٍ اَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْاِيْمَانِ: یعنی اس سے قبل تو وہ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے، گو ان کے باطن میں کفر تھا، مگر علانیہ اس کا اظہار نہیں کرتے تھے، لیکن اس روز انھوں نے ایمان کو چھوڑ کر علانیہ کفر اختیار کر لیا، یا مطلب یہ ہے کہ اس دن انھیں ایمان کی بہ نسبت کفر کا مفاد زیادہ عزیز تھا اور انھوں نے واپس ہو کر مسلمانوں کو کمزور کیا اور کفر کو تقویت بخشی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ کلمہ انھوں نے طعن کے طور پر کہا تھا، پس اس لفظ کی وجہ سے وہ کفر کے قریب اور ایمان سے دور ہو گئے۔‘‘ (موضح) 4۔ يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ: یعنی بظاہر یہ کلمہ کہہ کر عذر لنگ اور بہانہ بناتے ہیں، مگر جو جذبات ان کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں ان کا صاف طور پر اظہار نہیں کرتے، دراصل یہ مسلمانوں کی ہلاکت کے متمنی ہیں، لیکن انھیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی باتوں سے خوب واقف ہے۔