ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْرِ ۖ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ
یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے ان لوگوں سے کہا جنھوں نے اس چیز کو ناپسند کیا جو اللہ نے نازل کی، عنقریب ہم بعض کا موں میں تمھارا کہا مانیں گے اور اللہ ان کے چھپانے کو جانتا ہے۔
1۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ:’’ لِلَّذِيْنَ كَرِهُوْا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ‘‘سے مراد کفار ہیں، جیسا کہ اسی سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا: ﴿ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَرِهُوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ﴾ [محمد : ۹] ’’یہ اس لیے کہ انھوں نے اس چیز کو نا پسند کیا جو اللہ نے نازل کی تو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے۔ ‘‘ 2۔ سَنُطِيْعُكُمْ فِيْ بَعْضِ الْاَمْرِ: بعض کاموں سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور عداوت ہے اور یہ کہ جب جنگ کا موقع آئے مسلمانوں کو دھوکا دیا جائے اور ہر طریقے سے ان کے دشمنوں کی مدد کی جائے۔ یعنی ان کے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر و ارتداد کی طرف پلٹنے، جہاد سے فرار اور منافقت اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مخلص مسلمانوں کی طرح وہ تمام کاموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کو ناپسند کرنے والے کفار سے کہا کہ ہم اسلام قبول کرنے اور مسلمانوں میں رہنے کی وجہ سے تمھاری ہر بات نہیں مان سکتے، نہ کھلم کھلا اپنے کفر کا اظہار کر سکتے ہیں، مگر ہم کچھ کاموں میں تمھاری اطاعت ضرور کریں گے۔ وہ اس طرح کہ جنگ کے موقع پر تمھاری مدد کریں گے، جیسا کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن اُبی اُحد کے موقع پر عین میدانِ جنگ سے تین سو آدمیوں کو واپس لے گیا اور جس طرح منافقین نے بنو نضیر کے یہودیوں کو ہلاشیری دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈٹے رہو، اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمھارے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ دیکھیے سورۂ حشر (۱۱)۔ 3۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِسْرَارَهُمْ: اور اللہ تعالیٰ ان کی سرگوشیوں اور سازشوں کو جو وہ چھپ کر کرتے ہیں خوب جانتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ انھیں اس کی سزا ضرور دے گا۔ اس آیت کا مضمون سورۂ نساء کی آیت (۸۱) میں بھی بیان ہوا ہے۔