أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا
تو کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے؟ اللہ نے ان پر تباہی ڈال دی اور ان کافروں کے لیے بھی اسی جیسی ( سزائیں) ہیں۔
1۔ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: یہ ’’ فَتَعْسًا لَّهُمْ ‘‘ ہی کی وضاحت ہے کہ کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر پہلی تباہ شدہ قوموں کے آثار دیکھ کر ان کی ہلاکت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا؟ نزولِ قرآن کے وقت ان میں سے بہت سے آثار موجود تھے اور بعض اب بھی باقی ہیں۔ ’’ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا ‘‘ کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ روم (۹) اور سورۂ مومن (۲۱)۔ 2۔ دَمَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: ’’ دَمَّرَ ‘‘ ہلاک کر دیا۔ ’’اَلدَّمَارُ‘‘ ہلاکت۔ ’’ دَمَّرَ ‘‘ خود بھی متعدی ہے، اصل میں ’’دَمَّرَهُمُ اللّٰهُ‘‘ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کر دیا۔ مگر ’’عَلَيْهِمْ‘‘ لانے سے ہلاک کرنے میں مبالغے کا اظہار مقصود ہے : ’’ أَيْ أَلْقٰي عَلَيْهِمُ الدَّمَارَ ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر ہلاکت اور تباہی ڈال دی۔ 3۔ وَ لِلْكٰفِرِيْنَ اَمْثَالُهَا:’’ اَمْثَالُهَا‘‘ میں ضمیر ’’هَا‘‘ ’’عَاقِبَةُ ‘‘ کی طر ف لوٹ رہی ہے۔ ’’أَمْثَالٌ‘‘ کو جمع اس لیے لایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس جیسے بے شمار عذاب موجود ہیں۔ ’’ اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا ‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ پہلی قوموں نے پیغمبروں کو جھٹلایا اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کے عذاب بھیج کر انھیں تباہ و برباد کر دیا اور ان موجودہ کافروں کے لیے بھی سرکشی اختیار کرنے کی صورت میں اس جیسے بے شمار عذاب تیار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ اقوام پر رسولوں کی نافرمانی کی پاداش میں دنیا میں تباہی اور بربادی نازل کی، جس کا سبب ان کا کفر تھا اور ان کافروں کے لیے دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی ایسے کئی عذاب تیار ہیں۔