سورة الأحقاف - آیت 20

وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جس دن وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، آگ پر پیش کیے جائیں گے، تم اپنی نیکیاں اپنی دنیا کی زندگی میں لے جا چکے اور تم ان سے فائدہ اٹھا چکے، سو آج تمھیں ذلت کے عذاب کا بدلہ دیا جائے گا، اس لیے کہ تم زمین میں کسی حق کے بغیر تکبر کرتے تھے اور اس لیے کہ تم نافرمانی کیا کرتے تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ يَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ: پچھلی آیات سے اس کا ربط دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ والدین سے بدسلوکی کرنے والے قیامت کے منکر کے انجام کے ذکر کے بعد تمام کفار کا انجام بیان فرمایا۔ دوسرا یہ کہ پچھلی آیت میں ذکر ہوا کہ مومن ہوں یا کافر سب کو ان کے اعمال کے مطابق جزا ملے گی اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا، تو اب اس سوال کا جواب دیا کہ کفار دنیا میں جو نیکیاں کرتے رہے ان کا کیا بنے گا؟ کم از کم ان کا بدلا تو ضرور ملنا چاہیے، اگر انھیں ان کی جزا نہ دی گئی تو یہ ظلم ہے۔ فرمایا اس وقت کو یاد کرو جب وہ لوگ جنھوں نے حق قبول کرنے سے انکار کیا، آگ پر پیش کیے جائیں گے۔ اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَ اسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا: کفار چونکہ اپنے تکبر اور فسق کی وجہ سے ایمان قبول کرنے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا پابند کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی آخرت ان کا مقصود ہوتی ہے، اس لیے انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلا دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے۔ ان میں سے جو اعمال انھوں نے دنیا کے کسی مفاد مثلاً شہرت وغیرہ کے لیے کیے تھے ان کا تو آخرت سے کوئی تعلق ہی نہیں، البتہ جو اعمال انھوں نے اللہ کے لیے کیے ہوتے ہیں ان کا بدلا بھی انھیں یہیں دنیا میں دے دیا جاتا ہے، جو اور کچھ نہ ہو تو اتنا ہی بہت زیادہ ہے کہ ان کے کفر و شرک پر فوری گرفت نہیں ہوتی، بلکہ انھیں مہلت دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ یہ کہ انھیں دنیا کی کئی نعمتیں بھی دی جاتی ہیں۔ (دیکھیے ہود : ۱۵، ۱۶) انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَةً، يُعْطٰی بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيُجْزٰی بِهَا فِی الْآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعَمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلّٰهِ فِي الدُّنْيَا حَتّٰی إِذَا أَفْضٰی إِلَی الْآخِرَةِ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُّجْزٰی بِهَا )) [مسلم، صفات المنافقین، باب جزاء المؤمن بحسناتہ في الدنیا والآخرۃ....: ۲۸۰۸ ] ’’اللہ تعالیٰ کسی مومن کی کسی ایک نیکی میں بھی کمی نہیں کرے گا، اسے اس کے عوض دنیا میں بھی دیا جائے گا اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جائے گی۔ رہا کافر تو اسے ان نیکیوں کے عوض جو اس نے اللہ کے لیے کی ہوتی ہیں دنیا میں کھلایا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ہو گی جس کی اسے جزا دی جائے۔‘‘ فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ ....: اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نیکی کی جزا اور ہر بدی کی سزا اس نیکی یا بدی کی مناسبت سے دی جائے گی، جیسا کہ روزہ داروں کے لیے ’’باب الریان‘‘ سے داخلہ ہو گا۔ تو کفار کو ذلیل کرنے والا عذاب اس تکبر کی مناسبت سے ہو گا جو انھوں نے کیا، وہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے، ان کی عزت انھیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، لا محالہ انھیں ایسا عذاب دیا جائے گا جو ان کے تکبر کا بدلا ہو۔ قیامت کے بعض مواقع میں ان کی ذلت کا نقشہ اس حدیث میں بیان ہوا جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَيُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَهَنَّمَ يُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْهُمْ نَارُ الْأَنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِيْنَةِ الْخَبَالِ )) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ، باب ما جاء في شدۃ الوعید للمتکبرین : ۲۴۹۲، قال الألباني حسن ] ’’متکبر لوگ قیامت کے دن آدمیوں کی شکل میں چیونٹیوں کی طرح اٹھائے جائیں گے، ہر جگہ سے ذلت انھیں ڈھانپ رہی ہو گی۔ پھر انھیں ہانک کر جہنم کے ایک قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے۔ ان پر آگوں کی آگ چڑھ رہی ہو گی، انھیں جہنمیوں کا نچوڑ پلایا جائے گا، جو تباہ کن کیچڑ ہو گا۔‘‘ رہی یہ بات کہ تکبر کیا ہے؟ تو اس کی تفصیل عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً، قَالَ إِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ۹۱ ] ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرّہ برابر تکبر ہو گا۔‘‘ ایک آدمی نے کہا : ’’آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا اچھا ہو (تو کیا یہ تکبر ہے)؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اللہ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کو ٹھکرا دینے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔‘‘ تَسْتَكْبِرُوْنَ فِي الْاَرْضِ: ’’تم زمین میں بڑے بنتے تھے‘‘ اگرچہ بڑائی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا حق نہیں خواہ وہ زمین میں ہو یا آسمانوں میں، مگر زمین کے رہنے والوں کو تو بدرجہ اولیٰ اپنی حیثیت مدنظر رکھنی چاہیے۔ پستی کے مکین کو بلندی کی ہوس کسی طرح بھی زیب نہیں دیتی، فرمایا: ﴿ وَ لَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا﴾ [ بني إسرائیل : ۳۷ ] ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ کبھی زمین کو پھاڑے گا اور نہ کبھی لمبائی میں پہاڑوں تک پہنچے گا۔‘‘ بِغَيْرِ الْحَقِّ: اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ اس کی صراحت اس لیے فرمائی کہ تکبر اللہ کے سوا کسی کا حق ہے ہی نہیں، جو بھی تکبر کرتا ہے ناحق کرتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ناحق تکبر حرام ہے، جس کا ذکر اوپر گزرا، البتہ جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے کفار کے مقابلے میں تکبر حق ہے اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ وَ بِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ: استکبار سے مراد ایمان سے انکار اور فسق سے مراد دوسرے گناہ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ذلت کے عذاب کے دو سبب ہوں گے، ایک زمین میں ناحق تکبر، یعنی ایمان لانے سے انکار اور دوسرا فسق، یعنی معاصی اور نافرمانیاں اور یہ دونوں کفار کا شیوہ ہیں، مسلمانوں کو اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ 7۔ واضح رہے کہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کو دنیا کی نعمتیں کم از کم استعمال کرنی چاہییں، تاکہ اس کی آخرت کی نعمتوں میں کمی نہ ہو اور یہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے زہد اور سادہ زندگی اور دنیا کی لذتوں سے اجتناب کے واقعات لکھے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں ہے ہی نہیں، اس کا تعلق کفار سے ہے۔ کفار کے لیے صرف دنیا کی نعمتیں ہیں جبکہ ایمان والوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں ہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللّٰهِ الَّتِيْ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّيِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ﴾ [ الأعراف : ۳۲ ] ’’تو کہہ کس نے حرام کی اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں؟ کہہ دے یہ چیزیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں (بھی) ہیں، جبکہ قیامت کے دن (ان کے لیے) خالص ہوں گی۔‘‘ مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلا دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملتا ہے، جیسا کہ اس آیت کے فائدہ (۲) میں حدیث گزری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا دنیا کی لذتوں سے اجتناب اس آیت کی بنا پر نہ تھا، کیونکہ یہ کفار کے لیے ہے، ان کا اجتناب اس لیے تھا کہ وہ دنیا کی لذتوں میں منہمک ہو کر آخرت سے غافل نہ ہو جائیں اور اس صبر و زہد پر انھیں زیادہ ثواب حاصل ہو۔ (خلاصہ اضواء البیان)