قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی، پھر وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا ( تو تمھارا انجام کیا ہوگا) بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
1۔ قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ....:’’ اَرَءَيْتُمْ ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’کیا تم نے دیکھا۔‘‘ اہلِ عرب اسے ’’ أَخْبِرُوْنِيْ‘‘ (مجھے بتاؤ) کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی کیا تم نے دیکھا؟ اگر دیکھا ہے تو مجھے بتاؤ۔ ’’ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ ‘‘ میں ’’اس جیسے کی شہادت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس کی شہادت دی ہو۔ کیونکہ بعض اوقات کسی چیز کی مثل سے مراد خود وہ چیز ہوتی ہے، جیسے کہتے ہیں : ’’مِثْلُكَ لَا يَفْعَلُ هٰذَا‘‘ ’’تیرے جیسا یہ کام نہیں کرتا‘‘ یعنی تو یہ کام نہیں کرتا۔ اس لیے آگے ’’ فَاٰمَنَ وَ اسْتَكْبَرْتُمْ ‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس جیسے پر ایمان لایا، بلکہ اس کا مطلب ہے ’’پھر وہ اس پر ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا۔‘‘ لفظ ’’مِثْلٌ‘‘ کو خود کسی کی ذات کے لیے استعمال کرنے کی ایک مثال ایک تفسیر کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا﴾ [ الأنعام : ۱۲۲ ] ’’ أَيْ كَمَنْ هُوَ (نَفْسُهُ) فِي الظُّلُمَاتِ ‘‘ یہاں ’’اس شخص کی طرح ہے جس کی مثل اندھیروں میں ہے‘‘ سے مراد ہے ’’اس شخص کی طرح ہے جو (خود) اندھیروں میں ہے۔‘‘ اسی طرح: ﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ﴾ [ البقرۃ : ۱۳۷ ] (پس اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو تو یقیناً وہ ہدایت پا گئے) سے مراد یہ ہے کہ ’’اگر وہ اس چیز پر ایمان لے آئیں جس پر تم ایمان لائے ہو....۔‘‘ (اضواء البیان) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ شوریٰ کی آیت (۱۱): ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ﴾ کی تفسیر۔ اس آیت میں ’’ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ‘‘ سے لے کر ’’ وَ اسْتَكْبَرْتُمْ ‘‘ تک شرط ہے، جس کی جزا محذوف ہے اور وہ بعد والے جملے ’’ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ‘‘ سے ظاہر ہو رہی ہے : ’’أَيْ فَمَنْ أَظْلَمُ مِنْكُمْ‘‘ ’’تو تم سے بڑھ کر ظالم کون ہے۔‘‘ اس کی تائید سورۂ حم السجدۃ (۵۲) سے بھی ہوتی ہے۔ قرآن کو جھٹلانے کے لیے کفار کے مختلف اعتراضات اور ان کے جوابات ذکر کرنے کے بعد اب انھیں اس پر ایمان نہ لانے کے انجامِ بد سے ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ بتاؤ کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اور تم اس کا انکار کرو، حالانکہ بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والا بھی اس کے حق ہونے کی شہادت دے چکا ہو، پھر وہ خود بھی اس پر ایمان لے آیا ہو مگر (تم یہ جان لینے کے باوجود کہ یہ حق ہے) محض تکبر اور جھوٹی بڑائی قائم رکھنے کے لیے اسے ماننے سے انکار کر دو (تو یقیناً تم ظالم ہو گے اور اللہ تعالیٰ تمھیں ہدایت کی توفیق نہیں دے گا) کیونکہ جو لوگ تکبر کرتے ہوئے حق سے انکار کر دیں ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ بھی سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق نہیں دیتا۔ 2۔ اس آیت میں ’’شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ ‘‘سے کون مراد ہے؟ مفسرین کے اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ سب سے مشہور قول یہ ہے کہ اس سے مراد عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کی دلیل سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : (( مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُوْلُ لِأَحَدٍ يَمْشِيْ عَلَی الْأَرْضِ إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ وَ فِيْهِ نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ: ﴿ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ﴾ )) [ بخاري، مناقب الأنصار، مناقب عبد اللّٰہ بن سلام رضی اللّٰہ عنہ : ۳۸۱۲ ] ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے سوا کسی ایسے شخص کے بارے میں جو زمین پر چل پھر رہا ہو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا کہ وہ جنتیوں میں سے ہے۔‘‘ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انھی کے بارے میں یہ آیت اتری: ﴿ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ﴾ [ الأحقاف : ۱۱ ] ’’اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی۔‘‘ مگر اس میں یہ اشکال ہے کہ یہ سورت مکی ہے جب کہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ جو حضرات اس ’’شاہد‘‘ سے مراد عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ لیتے ہیں وہ اس کا حل یہ بتاتے ہیں کہ بے شک سورت مکی ہے مگر یہ آیت مدنی ہو سکتی ہے، یا ہو سکتا ہے کہ مکہ میں پہلے ہی بنی اسرائیل میں سے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا پیش گوئی کے طور پر ذکر کر دیا گیا ہو۔ مگر زیادہ قرین قیاس بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے بنی اسرائیل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کی شہادت دی اور آپ پر ایمان لائے۔ کیونکہ اصولِ تفسیر میں یہ بات طے ہے کہ بعض اوقات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں مسئلے یا فلاں شخص کے بارے میں اتری، حالانکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت اس شخص یا اس مسئلے پر منطبق ہوتی اور صادق آتی ہے۔ دوسرا اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام یا بقول بعض عیسیٰ علیہ السلام ہیں، کیونکہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق ہونے کی شہادت تورات اور انجیل میں دی۔ خصوصاً عیسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی اور آپ پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے آپ کی تصدیق کی، فرمایا: ﴿ وَ اِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗ اَحْمَدُ ﴾ [الصف : ۶ ] ’’اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بلاشبہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اس کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے تورات کی صورت میں ہے اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں،جو میرے بعد آئے گا،اس کا نام احمد ہے۔‘‘ تورات و انجیل میں تحریف کے باوجود اب بھی ان میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت دی گئی ہے اور آپ کی تصدیق کی گئی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ صف (۶) اور سورۂ اعراف (۱۵۷) کی تفسیر۔ چوتھا قول جو زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے، یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ کا تجارت کے سلسلے میں مدینہ، خیبر اور شام میں آنا جانا عام تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے سورۂ قریش میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ ان سفروں میں ان کی ملاقات اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ سے بھی ہوتی تھی اور وہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھتے تھے اور ان میں سے منصف لوگ حق بات کی شہادت سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مکی سورتوں میں بھی اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اہلِ کتاب کے اہلِ علم بھی اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کتاب کی تصدیق کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں، اس لیے ’’ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ ‘‘ میں لفظ ’’ شَاهِدٌ ‘‘ جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا اسم جنس ہے اور اس سے مراد ان تمام لوگوں میں سے کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ میں موجود ہونے کے وقت آپ کے سچا نبی ہونے کی شہادت دی، جیسا کہ نجاشی رضی اللہ عنہ کا آپ پر ایمان لانا اور آپ کے حق ہونے کی شہادت دینا سب کو معلوم ہے، اگرچہ مدینہ میں ایمان لانے والے اسرائیلی صحابہ بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ اب مکی سورتوں کی وہ آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں اہلِ کتاب کی شہادت کو بطور تائید ذکر کیا گیا ہے: ﴿ قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ﴾ [ الرعد : ۴۳ ] ’’کہہ دے میرے درمیان اور تمھارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور وہ شخص بھی جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَّ يَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَا اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۱۰۷، ۱۰۸ ] ’’بے شک جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا، جب ان کے سامنے اسے پڑھا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ یقیناً ہمیشہ پورا کیا ہوا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْا اٰمَنَّا بِهٖ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ ﴾ [ القصص : ۵۳ ] ’’اور جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، یقیناً یہی ہمارے رب کی طرف سے حق ہے، بے شک ہم اس سے پہلے فرماں بردار تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اَوَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً اَنْ يَّعْلَمَهٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ﴾ [ الشعراء : ۱۹۷ ] ’’اور کیا ان کے لیے یہ ایک نشانی نہ تھی کہ اسے بنی اسرائیل کے علماء جانتے ہیں۔‘‘