وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ
اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن باطل والے خسارہ پائیں گے۔
1۔ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ: پچھلی آیت میں پہلی دفعہ زندگی بخشنے اور موت دینے کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا، اس آیت میں آسمان و زمین یعنی ساری کائنات کے اکیلے مالک ہونے کو قیامت کی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا کہ وہ اپنی ملکیت میں جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ ساری کائنات بنا سکتا ہے، اسے فنا بھی کر سکتا ہے اور پھر دوبارہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس کے بعد قیامت کے کچھ احوال ذکر فرمائے۔ 2۔ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّخْسَرُ الْمُبْطِلُوْنَ: جس طرح کوئی تاجر اپنے سرمائے کے ذریعے سے نفع حاصل کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو زندگی، صحت اور عقل کا سرمایہ عطا فرما کر آخرت کی کامیابی کا نفع حاصل کرنے کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا۔ اہل باطل یعنی کفار نے اپنے اس عزیز سرمائے کے ذریعے سے نفع حاصل کرنے کے بجائے اسے اللہ کے ساتھ شرک، اس کی نافرمانی اور قیامت کا انکار کرنے میں صرف کر دیا اور صریح خسارے میں رہے۔ اس خسارے کا پوری طرح اظہار اس وقت ہو گا جب قیامت قائم ہو گی، کیونکہ دنیا میں تو اس خسارے کی تلافی کا پھر بھی موقع موجود ہے مگر اس وقت بازارِ عمل میں واپس جانے کی اجازت ہی نہیں ہو گی کہ وہ اپنے خسارے کی تلافی کر سکیں۔ خسارے کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عصر کی تفسیر۔