وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
اور انھوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی (زندگی) نہیں، ہم (یہیں) جیتے اور مرتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا، حالانکہ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ محض گمان کر رہے ہیں۔
1۔ وَ قَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ مومنون (۳۷) یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ نَحْيَا وَ نَمُوْتُ‘‘ (ہم جیتے ہیں اور مرتے ہیں) یہ کیوں کہا : ﴿نَمُوْتُ وَ نَحْيَا﴾ ’’ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں؟‘‘ اس کا جواب کئی طرح سے ہے، ایک تویہ کہ ’’واؤ‘‘ میں ترتیب ضروری نہیں ہوتی اور یہاں ان کی بات نقل کرتے ہوئے کلام کے حسن کے لیے ایسا کیا گیا ہے، کیونکہ ’’ مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا ‘‘ کے بعد ’’ نَمُوْتُ وَ نَحْيَا ‘‘ کے جملے میں جو حسن اور موافقت ہے وہ ’’نَحْيَا وَ نَمُوْتُ‘‘ میں نہیں۔ دوسرا جواب یہ کہ ’’ نَمُوْتُ وَ نَحْيَا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہم مر جاتے ہیں اور ہماری اولادیں رہتی ہیں، یا ہم میں سے کچھ مر جاتے ہیں کچھ جیتے رہتے ہیں اور تیسرا جواب یہ کہ ’’ نَمُوْتُ ‘‘ کا مطلب ہے کہ پہلے ہم عدم اور موت کی حالت میں ہوتے ہیں اور ’’ نَحْيَا ‘‘ کا مطلب ہے کہ پھر ہم دنیا کی حیات کی حالت میں آ جاتے ہیں، سو زندگی ہے تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد اور کوئی زندگی نہیں۔ 2۔ وَ مَا يُهْلِكُنَا اِلَّا الدَّهْرُ: ان کی اس بات سے ظاہر ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ انھیں ہلاک کرنے والا کوئی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ وہی پوری کائنات کا خالق و مالک اور مدبر ہے، مگر چونکہ ان کی بے قید خواہشات کی راہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے سامنے پیش ہونے کا عقیدہ زبردست رکاوٹ ہے، اس لیے انھوں نے آخرت کی زندگی ہی کا انکار کر دیا اور یہ ماننے کے بجائے کہ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، وہ جب چاہے پہلے کی طرح انھیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اور کرے گا، یہ کہہ دیا کہ زمانے کے سوا کوئی نہیں جو ہمیں ہلاک کرے، بس یہ دن رات کی گردش ہی ہے جو ہمیں فنا کر دیتی ہے۔ درحقیقت یہ ان کا اپنے آپ کو فریب دینا ہے، کیونکہ زمانہ اور دن رات کی گردش اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتے، ان کی ڈور تو ایک مالک کے ہاتھ میں ہے جو اللہ تعالیٰ ہے، جس کا نام وہ نہیں لینا چاہتے، اس کے بجائے زمانے کا نام لیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہمارے زمانے کے ملحد مسلمان ہیں جو خود بدکردار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حدود کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں، مگر کھل کر یہ کہہ نہیں سکتے، اس لیے مولوی کو گالی دیتے ہیں کہ مولوی لوگوں کو وحشیانہ سزائیں دلانا چاہتے ہیں، چوروں کے ہاتھ کٹوانا، زانی کو درّے مروانا اور قاتل کو قتل کروانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ بے چارے مولوی کا اس میں کیا قصور ہے؟ اس نے تو وہ حکم سنایا جو اس کے مالک نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ اسی طرح وہ مشرک اپنی ہلاکت اور فنا کا باعث زمانے کو قرار دے رہے ہیں، حالانکہ بے چارہ زمانہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الْأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ الجاثیۃ : ۴۸۲۶ ] ’’اللہ عز و جل نے فرمایا، ابنِ آدم مجھے ایذا دیتا ہے، وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، تمام معاملہ میرے ہاتھ میں ہے، دن رات کو الٹ پلٹ میں کرتا ہوں۔‘‘ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ الدَّهْرُ )) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النھي عن سب الدھر :5؍2246 ] ’’زمانے کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ يُؤْذِيْنِي ابْنُ آدَمَ، يَقُوْلُ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ! فَلَا يَقُوْلَنَّ أَحَدُكُمْ يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ! فَإِنِّيْ أَنَا الدَّهْرُ أُقَلِّبُ لَيْلَهُ وَنَهَارَهُ فَإِذَا شِئْتُ قَبَضْتُهُمَا )) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النھي عن سب الدھر : 5؍2246] ’’اللہ عز و جل نے فرمایا، ابنِ آدم مجھے ایذا دیتا ہے۔ کہتا ہے، ہائے زمانے کی ناکامی! سو تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ہائے زمانے کی ناکامی! کیونکہ میں ہی تو زمانہ ہوں۔ اس کے رات دن کو الٹ پلٹ میں کرتا ہوں، پھر جب چاہوں گا دونوں کو قبض کر لوں گا۔‘‘ ابنِ کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’شافعی، ابوعبیدہ اور کئی اور ائمہ رحمہم اللہ نے ’’لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللّٰهَ هُوَ الدَّهْرُ‘‘ (زمانے کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہے) کی تفسیر میں فرمایا : ’’عرب اپنی جاہلیت میں جب انھیں کوئی شدت یا بلا یا تکلیف پہنچتی تو کہتے تھے : ’’يَا خَيْبَةَ الدَّهْرِ!‘‘ (ہائے زمانے کی ناکامی!) چنانچہ وہ ان کاموں کو زمانے کی طرف منسوب کرتے اور اسے برا بھلا کہتے، حالانکہ وہ سب کام کرنے والا تو اللہ تعالیٰ تھا، تو گویا انھوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو برا بھلا کہا، کیونکہ حقیقی فاعل وہی ہے۔ اس لیے اس اعتبار سے زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا، کیونکہ وہ جسے مراد لے رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘ اس کی یہ شرح سب سے اچھی ہے اور یہی مراد ہے۔ (واللہ اعلم) اور ابن حزم اور ان کے طریقے پر چلتے ہوئے جن لوگوں نے اس حدیث کو لے کر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ’’ اَلدَّهْرُ ‘‘ (زمانہ) کو شمار کیا ہے انھوں نے غلطی کی ہے۔‘‘ (ابن کثیر) 3۔ وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ: یعنی وہ یہ بات کہ ’’اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں‘‘ اور یہ کہ ’’انسان کو فوت کرنے والا اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ زمانہ ہی اسے ہلاک کر تا ہے‘‘ کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے، بلکہ صرف گمان کی بنا پر کہہ رہے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ روح کیسے نکلتی ہے اور ہمیں کون ہلاک کرتا ہے۔‘‘ کیونکہ جب وہ آئندہ ہونے والی کسی بات کا علم ہی نہیں رکھتے تو وہ یہ بات یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں۔ دراصل ان کی خواہش یہ ہے کہ نہ موت کے بعد کوئی زندگی ہو اور نہ ان سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ تم نے کیا کیا، تاکہ وہ اپنی من مانی کرتے رہیں۔ اس طرح انھوں نے اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے اپنے مالک سے اور قیامت کے دن کی باز پرس سے آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں۔