فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
1۔ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ: یہاں جار مجرور ”بِرَحْمَةٍ“ پہلے آنے ہی سے تاکید پیدا ہو گئی تھی، پھر ’’مَا‘‘ لا کر ”فَبِمَا رَحْمَةٍ“ میں تاکید مزید ہو گئی۔ ’’رَحْمَةٍ ‘‘ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی رحمت‘‘ کیا ہے۔ 2۔ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ: احد کے دن مسلمانوں نے خوف ناک غلطی کی اور میدان چھوڑ کر فرار اختیار کیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے دوبارہ جمع ہوئے تو آپ نے ان کو کسی قسم کی سرزنش نہیں کی، بلکہ حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کا یہ حسن خلق اور طبیعت کی نرمی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان اور رحمت کا نتیجہ ہے، ورنہ مسلمانوں کا جمع ہونا ممکن نہ تھا۔ (قرطبی) معلوم ہوا دعوت دین کے لیے نرمی اور حسن اخلاق نہایت ضروری چیزیں ہیں، بدخلقی، درشتی اور سخت دلی سے لوگ کبھی قریب نہیں آ سکتے۔ 3۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ: یعنی جنگ میں ان سے جو غلطیاں ہوئیں وہ انھیں معاف کر دیں، اللہ سے بھی ان کے لیے استغفار کریں اور مشورے سے محروم نہ کریں بلکہ برابر مشورہ کرتے رہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مسلمانوں سے خفا ہوا ہو گا اور چاہا ہو گا کہ اب ان سے مشورہ نہ پوچھیے، سو حق تعالیٰ نے تلقین فرمائی کہ اول مشورہ کر لینا بہتر ہے، جب ایک بات طے ہو جائے پھر پس و پیش نہ کرے۔‘‘ (موضح) اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب کبھی جنگ یا انتظامی قسم کا کوئی ایسا معاملہ در پیش ہو، جس میں ہماری طرف سے بذریعۂ وحی کوئی متعین حکم نہ دیا جائے تو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر لیا کرو، تاکہ ان کی دل جوئی ہو اور انھیں بعد میں باہمی مشورہ سے مل کر کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر اہم امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورے فرمائے اور ان پر عمل بھی ہوا۔ (دیکھیے ابن کثیر زیر بحث آیت) اس کے بعد خلفائے راشدین بھی اس سنت پر پوری طرح کار بند رہے۔ پھر اگر مشورے کے بعد کسی چیز کا فیصلہ کر لیا جائے تو اسے پوری دل جمعی سے کر گزرنے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینے کا نام توکل ہے۔ چنانچہ مذکور ہے کہ جنگ اُحد کے موقع پر کھلے میدان میں لڑائی کرنے کے فیصلے کے بعد جب آپ مسلح ہو کر تشریف لے آئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آپ کی رائے کے مطابق شہر ہی میں رہ کر مقابلہ کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَيْسَ لِنَبِيٍّ اِذَا لَبِسَ لَأْمَتَهُ أَنْ يَّضَعَهَا حَتّٰي يُقَاتِلَ )) [ مسند أحمد : ۳؍۳۵۱، ح : ۱۴۷۹۹ ] ’’کسی نبی کے لائق نہیں کہ جب اپنا اسلحہ پہن لے تو لڑنے سے پہلے اسے اتار دے۔‘‘ یہ آیت اور آیت : ﴿وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُم﴾ [ الشوریٰ : ۳۸ ] اسلامی طرزِ حکومت کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’(جنگ بدر کے موقع پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ابو سفیان کے آنے کی خبر ملی تو آپ نے مشورہ کیا۔ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے بات کی تو آپ نے ان سے اعراض کیا۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا : ’’شاید آپ ہم ( انصار) سے پوچھنا چاہتے ہیں، اے اللہ کے رسول ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ حکم دیں کہ گھوڑوں کو برک الغماد (مدینہ سے بہت دور ایک جگہ) تک لے جائیں تو ہم ضرور لے جائیں گے۔‘‘ [ مسلم، الجہاد والسیر، باب غزوۃ بدر : ۱۷۷۹] جنگ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کرنے پر سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خندق کھودنے کی رائے دی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس مشورے میں بہت برکت پیدا فرمائی۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء برابر دیانت دار اہل علم سے مشورہ لیتے رہے۔‘‘( قرطبی) آج کل بہت سے لوگ مشورے اور ووٹ کو ایک چیز سمجھتے ہیں اور جمہوریت کو اسلامی شوریٰ قرار دیتے ہیں، حالانکہ موجودہ جمہوریت اور اسلامی شوریٰ الگ الگ چیزیں ہیں، کیونکہ جمہوریت ایک مستقل دین ہے۔ اس میں : (1) ہر اہل اور نا اہل کا ووٹ برابر ہے۔ (2) اس میں عوام کی اکثریت فیصلہ کن ہے، فیصلوں میں انھی کو اللہ اور رسول کا مقام حاصل ہے، خواہ وہ سود کو حلال کر دیں، یا زنا اور قوم لوط کے عمل کو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی کوئی شرط نہیں، اگر کہیں ہے بھی تو دھوکا دینے کے لیے۔ (3) اس میں فیصلہ اکثریت کے نمائندوں کی اکثریت کا ہوتا ہے، صدر اس فیصلے کا پابند ہے، خواہ اسے غلط سمجھتا ہو یا صحیح۔ (4) ان کے ہاں مشورے کا معنی اکثریت ہے۔ جب کہ اسلام میں: (1) امیر مشورہ لینے کا پابند ہے، مگر صرف ان امور میں جو قرآن و سنت میں مذکور نہ ہوں، بلکہ تدبیری اور انتظامی قسم کے ہوں۔ (2) امیر مشورہ ان لوگوں سے لے گا جو اس معاملے میں رائے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انھیں علم نہیں ہے، یا ان کے بارے میں انھیں اشکال ہے، فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے متعلق مشورہ کریں۔‘‘ (3) مشورے کے بعد آخری فیصلہ امیر کا ہو گا، فرمایا : ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ﴾ [ آل عمران : ۱۵۹ ] اگر وہ مناسب سمجھے تو اکثریت کے فیصلے پر عمل کرے اور اگر کم لوگوں میں زیادہ اہلیت والے لوگ ہونے کی وجہ سے ان کی رائے کو بہتر سمجھے تو اس پر فیصلہ کرے، کیونکہ فیصلوں کے نتائج کا آخری ذمہ دار امیر ہو گا، اکثریت نہیں اور وہ بھی اللہ پر توکل کرتے ہوئے فیصلے پر عمل کرے گا، نہ کہ مشورہ دینے والوں کی یا اپنی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید ہے۔