وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
اور جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی چیز معلوم کرلیتا ہے تو اسے مذاق بنا لیتا ہے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
1۔ وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰيٰتِنَا شَيْـًٔا اتَّخَذَهَا هُزُوًا: ’’ اتَّخَذَهَا ‘‘ میں ضمیر ’’ هَا ‘‘ ’’ شَيْـًٔا ‘‘ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے، کیونکہ ’’ اٰيٰتِنَا ‘‘ کا لفظ اگرچہ مذکر ہے مگر اس سے مراد کوئی ’’آيَةٌ‘‘ (آیت) ہے، اس لیے ضمیر مؤنث ’’ هَا ‘‘ استعمال فرمائی ہے اور ’’ اٰيٰتِنَا ‘‘ کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی آیت معلوم کر لیتا ہے (جسے وہ صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتا یا جس کا مطلب الٹا نکال لیتا ہے) تو اسے مذاق بنا لیتا ہے۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ جب وہ ہماری آیات میں سے کوئی آیت معلوم کر لیتا ہے تو صرف اس کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ہماری تمام آیات کو مذاق بنا لیتا ہے۔ مثلاً جب اس کے ہاتھ قرآن مجید کی کوئی ایسی بات آتی ہے جس کا مطلب توڑ مروڑ کر اس کا مذاق اڑا سکتا ہے تو تمام آیات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ قرآن کی سبھی آیات ایسی ہیں۔ یہ اس کے بدترین ’’افاك‘‘ و ’’اثيم‘‘ ہونے کا بیان ہے کہ آیاتِ الٰہی سن کر وہ کفر پر اصرار ہی نہیں کرتا بلکہ ناحق ان کا مذاق بھی اڑاتا ہے اور اتنا کہ انھیں مذاق بنا لیتا ہے۔ 2۔ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ: آیاتِ الٰہی کی اہانت کے بدلے میں ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔ اس آیت میں آیات سے استہزا اور ان کی توہین کی مناسبت سے ان کے لیے عذابِ مہین کی خبر دی۔