يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
جو اللہ کی آیات سنتا ہے، جبکہ اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر وہ تکبر کرتے ہوئے اڑا رہتا ہے، گویا اس نے وہ نہیں سنیں، سو اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دے۔
1۔ يَسْمَعُ اٰيٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَيْهِ....: جو اللہ کی آیات سنتا ہے، جو اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں، پھر تکبر کرتے ہوئے اپنے کفر و شرک پر ڈٹا رہتا ہے جیسے اس نے انھیں سنا ہی نہیں، سو اسے دردناک عذاب کی بشارت دے دے۔ 2۔ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا: یہاں ’’ ثُمَّ ‘‘ کا لفظ اظہارِ تعجب کے لیے ہے کہ اگر اس نے اللہ کی آیات نہ سنی ہوتیں تو الگ بات تھی، تعجب اس بات پر ہے کہ اللہ کی آیات اس کے سامنے پڑھی جاتی ہیں پھر وہ تکبر کرتے ہوئے کفر پر اصرار کرتا ہے، حالانکہ انسان کو تکبر زیب ہی نہیں دیتا، کیونکہ بڑائی تو صرف اللہ کی شان ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سورۂ انعام کے شروع میں فرمایا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔‘‘ 3۔ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ: بشارت خوش خبری کو کہتے ہیں، یعنی خوشی کی وہ خبر جس کے آثار بَشرہ پر ظاہر ہو جائیں۔ یہاں یہ لفظ تہکّم یعنی استہزا کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں عذابِ الیم کا ذکر فرمایا، اگلی آیت میں عذابِ مہین کا اور اس سے اگلی آیت میں عذابِ عظیم کا۔ اس آیت میں کفر پر اصرار اور استکبار کی مناسبت سے عذابِ الیم کی بشارت سنائی ہے۔