سورة آل عمران - آیت 156

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَّوْ كَانُوا عِندَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے کفر کیا اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا جب انھوں نے زمین میں سفر کیا، یا وہ لڑنے والے تھے، اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے، تاکہ اللہ اسے ان کے دلوں میں حسرت بنا دے اور اللہ زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا:’’ غُزًّى ‘‘ یہ’’غَازٍ‘‘ کی جمع ہے، جو ’’غَزَا يَغْزُوْ ‘‘ سے اسم فاعل ہے، بمعنی لڑنے والے، جیسے ’’رَاكِعٌ ‘‘ کی جمع ’’ رُكَّعٌ ‘‘ آتی ہے۔ مسلمانوں کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جا ؤ جو اپنے نفاق کی وجہ سے کافر ہیں اور یہ گندہ عقیدہ صرف دل ہی میں نہیں رکھتے بلکہ برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمارے جو بھائی جہاد کے سفر میں فوت ہو گئے یا لڑتے ہوئے مارے گئے، اگر ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے، نہ قتل ہوتے۔ ان کا یہ عقیدہ اور قول اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں میں حسرت و افسوس کا باعث بنائے رکھے گا۔ مسلمانوں کو اس عقیدہ سے اس لیے روکا کہ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بزدلی کا باعث بنتا ہے، جب کہ موت و حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا وقت مقرر ہے۔ یہی عقیدہ مسلمان کی قوت کا باعث ہے، اس لیے حکم دیا کہ دل مضبوط رکھو، موت اپنے وقت سے ایک لمحہ بھی پہلے نہیں آ سکتی۔ اگر مگر کے الفاظ شیطان کو دخل اندازی کا موقع دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قوی مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضعیف سے بہتر اور زیادہ محبوب ہے اور ہر ایک میں کوئی نہ کوئی بھلائی ہے، اس چیز کی حرص کرو جو تمھیں نفع دے اور اللہ سے مدد مانگو اور عاجز مت ہو جا ؤ اور اگر تمھیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ مت کہو، اگر میں ایسا اور ایسا کرتا (تو مجھے یہ مصیبت نہ پہنچتی) بلکہ یوں کہو کہ اللہ نے جو مقدر کیا اور جو چاہا کر دیا، اس لیے کہ ”لَوْ“ (اگر کا لفظ) شیطان کے کام (کا راستہ) کھول دیتا ہے۔‘‘ [ مسلم، القدر ، باب الإیمان بالقدر والاذعان لہ : ۲۶۶۴، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ]