إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
بے شک وہ لوگ جو تم میں سے اس دن پیٹھ پھیر گئے جب دو جماعتیں بھڑیں، شیطان نے انھیں ان بعض اعمال ہی کی وجہ سے پھسلایا جو انھوں نے کیے تھے اور بلاشبہ یقیناً اللہ نے انھیں معاف کردیا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا: یعنی احد کے دن جو مسلمان میدان جنگ سے ہٹ گئے، وہ شیطان کے پھسلانے کے سبب ہٹے، مگر شیطان کو انھیں پھسلانے کا موقع انھی کے کچھ گزشتہ گناہوں کی وجہ سے ملا۔ جن میں سے بعض کا ایک گناہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کی تھی۔ سلف سے مروی ہے کہ ایک نیک کام کرنے سے دوسرے نیک کام کی توفیق ملتی ہے اور ایک گناہ دوسرے گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ (ابن کثیر) مقصد یہ کہ بعض مخلص مسلمان جو اس دن بھاگ کھڑے ہوئے وہ اس وجہ سے نہیں بھاگے کہ وہ اسلام سے پھر گئے تھے، یا منافق تھے، بلکہ شامت نفس اور سیئات اعمال کی وجہ سے شیطان کو انھیں بہکانے کا موقع ملا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے: ((وَ نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا )) ’’ہم اپنے نفس کے شر اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔‘‘ [ ابن ماجہ، النکاح، باب خطبۃ النکاح : ۱۸۹۲، وصححہ الألبانی ] یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کا شر ہو یا اعمال کی شامت، ان کے ساتھ شیطان کا گمراہ کرنا بھی شامل ہوتا ہے۔ 2۔ وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ: اس سے تین آیات پہلے بھی ”وَ لَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ“ کہہ کر ان کی معافی کی نوید سنائی گئی ہے۔ اب پھر مزید اطمینان اور تسلی کے لیے دوبارہ خوش خبری سنائی جا رہی ہے کہ بلاشبہ یقینا اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا ہے، یعنی جو واقعی دل میں اخلاص رکھتے تھے ان کی توبہ اور معذرت کے سبب اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اب نہ ان پر کوئی گناہ ہے اور نہ کسی کو طعن کا حق ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے آل عمران (۱۵۲) کے حواشی۔