سورة الدخان - آیت 37

أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ أَهْلَكْنَاهُمْ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا یہ لوگ بہتر ہیں، یا تبع کی قوم اور وہ لوگ جو ان سے پہلے تھے؟ ہم نے انھیں ہلاک کردیا، بے شک وہ مجرم تھے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَهُمْ خَيْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ: تبع یمن کے قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا، جیسے کسریٰ ایران کے بادشاہوں کا، قیصر روم کے بادشاہوں کا، فرعون مصر کے بادشاہوں کا اور نجاشی حبشہ کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا۔ یہ حمیر کا بادشاہ تبع مومن تھا اور اس کی قوم کافر تھی، اس لیے اس کی قوم کی مذمت کی ہے، اس کی نہیں۔ وَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: پہلے لوگوں سے مراد عاد و ثمود، قومِ ابراہیم، قومِ لوط، اصحابِ مدین اور قومِ فرعون وغیرہ ہیں۔ اَهْلَكْنٰهُمْ اِنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ: یہ کفار کے اعتراض کا تاریخ سے جواب ہے کہ جو شخص یا قوم آخرت کا انکار کرے گی اسے کوئی چیز مجرم بننے سے روک نہیں سکتی، کیونکہ اسے بازپرس کی فکر ہی نہیں ہوتی، وہ اپنی خواہشات کے پیچھے بے لگام دوڑے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کی سرکشی، ظلم و زیادتی اور حد سے بڑھنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ’’یہ لوگ بہتر ہیں یا قومِ تبع اور اس سے پہلے کے لوگ‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفارِ مکہ تو اس خوش حالی اور قوت و شوکت کو پہنچ ہی نہیں سکے جو تبع کی قوم اور اس سے پہلے کی اقوام کو حاصل رہی ہے، جب ان کی خوش حالی انھیں اس زوال سے نہیں بچا سکی جو قیامت کے انکار کی وجہ سے ان پر آیا تو ان بے چاروں کی کیا حیثیت ہے۔