سورة آل عمران - آیت 154

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر ایک امن نازل فرمایا، جو ایک اونگھ تھی، جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی اور کچھ لوگ وہ تھے جنھیں ان کی جانوں نے فکر میں ڈال رکھا تھا، وہ اللہ کے بارے میں ناحق جاہلیت کا گمان کر رہے تھے، کہتے تھے کیا اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے؟ کہہ دے بے شک معاملہ سب کا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے تھے جو تیرے لیے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے، کہہ دے اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن لوگوں پر قتل ہونا لکھا جا چکا تھا اپنے لیٹنے کی جگہوں کی طرف ضرور نکل آتے اور تاکہ اللہ اسے آزمالے جو تمھارے سینوں میں ہے اور تاکہ اسے خالص کر دے جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ: ان پے درپے صدموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں موجود مسلمانوں پر اپنا خاص فضل فرمایا کہ ان پر اونگھ مسلط کر دی، جس سے انھیں امن و اطمینان حاصل ہو گیا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ’’ہم پر اونگھ چھا گئی، جب کہ ہم احد کے دن اپنی صفوں میں کھڑے تھے، حالت یہ تھی کہ میری تلوار میرے ہاتھ سے گر جاتی تھی، میں اسے اٹھا لیتا تھا، وہ پھر گر جاتی تھی اور میں اسے پھر اٹھا لیتا تھا۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب قولہ :﴿أمنة نعاسًا﴾ : ۴۵۶۲ ] ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ہی بیان فرماتے ہیں : ’’میں نے احد کے دن اپنا سر بلند کیا اور لوگوں کو دیکھنے لگا تو( کیا دیکھتا ہوں کہ) ہر شخص اونگھ کی وجہ سے اپنے سر کو ڈھال کے نیچے جھکائے ہوئے ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول کا مطلب ہے :﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا﴾ [ ترمذی، أبواب التفسیر، باب ومن سورۃ آل عمران : ۳۰۰۷ ] وَ طَآىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ: ظاہر ہے کہ اس سے مراد منافقین اور ضعیف ایمان والے مسلمان ہیں۔ ایسے حالات میں انھیں تو اپنی جانوں ہی کی فکر تھی۔ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ:ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ“ یہ ”غَيْرَ الْحَقِّ“ سے بدل ہے، یعنی وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ دین اسلام اور اس کے حاملین بس اب ہلاک ہو گئے، مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں ہو گی اور یہ دعوت حق پروان نہیں چڑھے گی۔ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ: یہ جملہ ”يَظُنُّوْنَ“ سے بدل ہے اور ”مِنَ الْاَمْرِ“ سے مراد فتح و نصرت ہے، یعنی بالکل مایوسی کا اظہار کرنے لگے اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمیں کبھی فتح بھی نصیب ہو گی اور کچھ ملے گا بھی ؟ یا ”مِنَ الْاَمْرِ“ سے مراد معاملے کا فیصلہ ہے کہ اس معاملے میں ہماری بات تو مانی ہی نہیں گئی، ہمیں مجبوراً ساتھ دینا پڑا، ورنہ ہم تو شہر سے باہر نکل کر لڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ ہم تو مجبور محض ہیں، ہمارا تو کچھ بھی اختیار نہیں۔ (فتح القدیر) مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا : مطلب یہ کہ اگر ہماری بات مان لی جاتی کہ شہر کے اندر رہ کر ہی جنگ لڑی جائے تو آج ہمارا یہ جانی نقصان نہ ہوتا، مگر ہماری کسی نے نہ سنی۔ یہ بات یا تو ان منافقین نے کہی جو جنگ میں شریک تھے، جیسا کہ زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اللہ کی قسم! میں معتب بن قُشَیر، جو بنو عمرو بن عوف سے تھا، اس کی بات سن رہا تھا، جب کہ اونگھ مجھے ڈھانپ رہی تھی، میں خواب کی طرح اس کی بات سن رہا تھا، جب وہ کہہ رہا تھا، اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔‘‘ [ المختارۃ، ح : ۸۶۴، ۸۶۵ ] اسے ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں بھی حسن سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات ان منافقین نے کہی ہو جو عبد اللہ بن ابی کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے تھے، اس صورت میں ”هٰهُنَا“ ( یہاں) کا اشارہ مدینہ کے قریب احد کی طرف ہو گا۔ (قرطبی، شوکانی) قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ:اس سے ان کے خیال کی تردید مقصود ہے، یعنی اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تب بھی جن لوگوں کی قسمت میں قتل ہونا لکھا جا چکا تھا وہ ضرور اپنے گھروں سے نکلتے اور جہاں اب مارے گئے ہیں، وہیں مارے جاتے، کیونکہ اللہ کی تقدیر سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وَ لِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ: یہ جملہ محذوف کی علت ہے، یعنی جنگ احد میں جو کچھ ہوا اور جن حالات سے مسلمان دوچار ہوئے، اس سے کئی اور حکمتوں کے ساتھ مقصود یہ بھی تھا کہ تمہارے دلوں کی حالت ظاہر ہو جائے اور تمہارے دل و ساوس سے پاک ہو جائیں، یا یہ کہ منافقین کے دلوں کا نفاق باہر نکل آئے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور احد کی لڑائی بگڑنے سے سارا بھانڈا پھوٹ گیا۔