وَلَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِينِ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے بنی اسرائیل کو ذلیل کرنے والے عذاب سے نجات دی۔
وَ لَقَدْ نَجَّيْنَا بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُهِيْنِ: موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں فرعون اور آل فرعون کو غرق کرنے کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل پر اپنے انعامات کا ذکر فرمایا۔ اس میں قریش کے جباروں کو فرعون اور آلِ فرعون کے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ نہ کفر کے یہ سردار فرعون جیسی قوت و شوکت کے مالک ہیں نہ مسلمان بنی اسرائیل جتنے مظلوم اور بے بس۔ تو جب فرعون کی قوت و شوکت کا یہ حال ہوا تو یہ بے چارے کیا حیثیت رکھتے ہیں اور جب بنی اسرائیل جیسے بے بس اور مظلوم ظلم سے نجات پا سکتے ہیں تو مسلمانوں کو بھی اس کی امید رکھنی چاہیے۔ ’’لام‘‘ اور ’’قَدْ‘‘ تاکید کے لیے قسم کا مفہوم رکھتے ہیں۔ یقین دلانے کے لیے قسم کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی کسی بات کا منکر ہو، یہاں یہ بات اتنی تاکید کے ساتھ اس لیے فرمائی کہ ماننے میں نہیں آتا کہ ظلم میں اس قدر جکڑی ہوئی قوم، جن کے لڑکے ذبح کیے جا رہے ہوں، لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے ہر خدمت لی جا رہی ہو اور وہ اف تک نہ کر سکتے ہوں اور دنیا میں کہیں سے انھیں مدد مل سکتی ہو نہ کوئی ان کے حق میں آواز اٹھانے والا ہو، انھیں بھی اتنی ذلت سے نجات مل سکتی ہے؟ فرمایا، ہاں، ہاں! ایسا ہوا ہے اور یقیناً ہوا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو ذلیل کرنے والے عذاب سے نجات دی۔