وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ۖ إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ
اور سمندر کو اپنے حال پر ٹھہرا ہو اچھوڑ دے، بے شک وہ ایسا لشکر ہیں جو غرق کیے جانے والے ہیں۔
وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ....: ’’رَهَا، يَرْهُوْ رَهْوًا‘‘ (ن) ’’ الْبَحْرُ ‘‘ سمندر کا ساکن ہونا۔ ’’رَهَا الرَّجُلُ رَهْوًا‘‘ جب آدمی دونوں ٹانگیں کھول لے اور انھیں الگ الگ کر لے۔ یہاں اس قصے کا وہ حصہ حذف کر دیا ہے جس میں ذکر ہے کہ بنی اسرائیل سمندر پر پہنچے تو پیچھے سے فرعون بھی پہنچ گیا، بنی اسرائیل سخت خوف زدہ ہو گئے کہ اب دوبارہ پکڑے جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مار۔ انھوں نے ایسا کیا تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ اپنی جگہ ایک بڑے پہاڑ کی شکل میں کھڑا ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل خیریت سے گزر گئے تو موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا: ﴿وَ اتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوًا ﴾ ’’اور سمندر کو اپنے حال پر ٹھہرا ہوا چھوڑ دے۔‘‘ دیکھیے سورۂ شعراء (۵۲ تا ۶۸) سمندر سے پار ہونے پر موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ سمندر کو اسی حالت میں ٹھہرا ہوا چھوڑ دیں کہ اس میں الگ الگ راستے کھلے ہوں، تعاقب کی فکر مت کریں، اس لشکر کو اسی سمندرمیں غرق کیا جانا ہے۔