فَدَعَا رَبَّهُ أَنَّ هَٰؤُلَاءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُونَ
آخر اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بے شک یہ مجرم لوگ ہیں۔
فَدَعَا رَبَّهٗ اَنَّ هٰؤُلَآءِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ: یہاں ایک لمبا قصہ حذف کر دیا گیا ہے جو کئی سال تک موسیٰ علیہ السلام کی دعوت، ہر طرح کی آزمائشوں کے باوجود فرعون کی سرکشی، بنی اسرائیل پر بے پناہ مظالم اور ان کے بے مثال صبر پر مشتمل ہے۔ ’’ فَدَعَا رَبَّهٗ ‘‘ کے ساتھ اس قصے کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ جب انھوں نے تمام معجزے دیکھنے، ہر بار ایمان لانے کا عہد کرنے اور اسے توڑ دینے کے بعد صاف لفظوں میں کہہ دیا: ﴿مَهْمَا تَاْتِنَا بِهٖ مِنْ اٰيَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ [الأعراف : ۱۳۲ ] ’’تو ہمارے پاس جو نشانی بھی لے آئے، تاکہ ہم پر اس کے ساتھ جادو کرے تو ہم تیری بات ہرگز ماننے والے نہیں۔‘‘ تو ان کے ایمان لانے سے پوری طرح مایوس ہونے کے بعد نوح علیہ السلام کی طرح موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان کے خلاف اپنے رب سے دعا کی کہ یہ لوگ مجرم ہیں، کسی طرح ماننے والے نہیں۔ سورۂ یونس میں ہے: ﴿ وَ قَالَ مُوْسٰى رَبَّنَا اِنَّكَ اٰتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَهٗ زِيْنَةً وَّ اَمْوَالًا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوْا عَنْ سَبِيْلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰى اَمْوَالِهِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوْا حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ ﴾ [ یونس : ۸۸ ] ’’اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب! بے شک تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں بہت سی زینت اور اموال عطا کیے ہیں، اے ہمارے رب! تاکہ وہ تیرے راستے سے گمراہ کریں، اے ہمارے رب! ان کے مالوں کو مٹا دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے، پس وہ ایمان نہ لائیں، یہاں تک کہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔‘‘