وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور وہ لوگ جنھیں یہ اس کے سوا پکارتے ہیں، وہ سفارش کا اختیار نہیں رکھتے مگر جس نے حق کے ساتھ شہادت دی اور وہ جانتے ہیں۔
1۔ وَ لَا يَمْلِكُ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ ....: پچھلی آیت میں ’’من دون الله‘‘ کے پاس آسمانوں اور زمین کی اور ان کے درمیان کی کسی بھی چیز کی ملک ہونے کی نفی تھی، اس آیت میں ان سے شفاعت کی ملکیت کی بھی نفی فرما دی۔ 2۔ اس آیت کی دو تفسیریں ہیں، دونوں مراد ہو سکتی ہیں اور یہ قرآن کا اعجاز ہے۔ پہلی یہ کہ مشرکین جن ہستیوں کو یہ سمجھ کر پکارتے ہیں کہ وہ ان کی شفاعت کریں گی ان کے پاس شفاعت کا کوئی اختیار نہیں، مگر وہ لوگ جنھوں نے کلمۂ حق یعنی ’’لا الٰہ الا الله‘‘ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ وہ اس کا یقین رکھتے تھے، مثلاً فرشتے، عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ کے دوسرے مقرب بندے۔ وہ چونکہ حق (توحید) کا یقین رکھ کر اس کی گواہی دیتے تھے اور انھوں نے کبھی لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم نہیں دیا، اس لیے وہ اللہ کے اذن سے سفارش کر سکیں گے۔ رہے بت اور دوسرے جھوٹے مشکل کشا اور حاجت روا، جن کی مشرکین پوجا کرتے ہیں، وہ تو اپنے آپ کو نہیں بچا سکیں گے بلکہ دوزخ کا ایندھن بنیں گے، کسی کی سفارش کیا کریں گے؟ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ ‘‘ سے پہلے لام جارہ محذوف ہے : ’’أَيْ إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ‘‘ یعنی سفارش کرنے والوں کو صرف ان لوگوں کے حق میں سفارش کا اختیار دیا جائے گا جنھوں نے حق یعنی کلمہ ’’لا الٰہ الا الله‘‘ کی شہادت دی اور صرف زبانی نہیں بلکہ اس کا علم اور یقین بھی رکھتے تھے۔ رہے کفار یا منافقین، تو ان کے حق میں کوئی شفاعت نہیں کرے گا۔ شفاعت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے آیت الکرسی، سورۂ مریم (۸۷)، انبیاء (۲۸)، سبا (۲۳)، نجم (۲۶) اور سورۂ نبا (۳۸)۔ 3۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہادت وہی معتبر ہے جو علم کے ساتھ دی جائے۔ دنیا میں اگرچہ ہر اس شخص کو مسلمان تصور کر لیا جاتا ہے جو زبانی کلمہ ’’لا الٰہ الا الله‘‘ کی شہادت دے، مگر قیامت کے دن اسی کی شہادت معتبر ہو گی جس نے دل کے یقین کے ساتھ یہ شہادت دی ہو گی۔