سورة الزخرف - آیت 79

أَمْ أَبْرَمُوا أَمْرًا فَإِنَّا مُبْرِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا انھوں نے کسی کام کی پختہ تدبیر کرلی ہے؟ تو بے شک ہم بھی پختہ تدبیر کرنے والے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَمْ اَبْرَمُوْا اَمْرًا فَاِنَّا مُبْرِمُوْنَ: ’’إِبْرَامٌ‘‘ کا معنی کسی چیز کو پختہ اور مضبوط کرنا ہے۔ اصل میں یہ رسی کو مضبوطی کے ساتھ بٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : ’’أَبْرَمَ فُلَانٌ الْحَبْلَ‘‘ ’’فلاں نے رسی کو خوب مضبوط کیا۔‘‘ یعنی یا انھوں نے کسی کام کی پختہ تدبیر اور اس کا پکا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سے مراد کفار کی خفیہ مجلسوں میں ان کے طے کردہ فیصلے ہیں جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے تھے، حتیٰ کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قید یا قتل کرنے یا مکہ سے نکالنے کا پکا فیصلہ کر لیا۔ (دیکھیے انفال : ۳۰) فرمایا، انھوں نے ایسے کسی کام کا پختہ ارادہ کر لیا ہے تو ہم بھی پکی تدیبر کرنے والے ہیں۔ پھر سب نے دیکھا کہ وہ کس طرح ناکام و نامراد ہوئے اور اللہ کا دین کس طرح غالب رہا۔