أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِّنْ هَٰذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ
بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں، وہ جو حقیر ہے اور قریب نہیں کہ وہ بات واضح کرے۔
1۔ اَمْ اَنَا خَيْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِيْ هُوَ مَهِيْنٌ: ’’ مَهُنَ يَمْهُنُ مَهَانَةً ‘‘ (ک) کے معنی ہیں ’’حَقُرَ وَضَعُفَ۔‘‘ ’’ مَهِيْنٌ ‘‘ بروزن ’’فَعِيْلٌ‘‘ حقیر، ضعیف۔ ’’ اَمْ ‘‘ سے پہلے ایک جملہ ہمزہ استفہام پر مشتمل ہوتا ہے، جو یہاں اس مفہوم کا ہو گا کہ ’’کیا یہ شخص یعنی موسیٰ( علیہ السلام ) بہتر ہے یا میں بہتر ہوں…؟‘‘’’ اَمْ‘‘’’بَلْ‘‘کے معنی میں بھی آتا ہے، اس صورت میں معنی یہ ہو گا : ’’بلکہ میں بہتر ہوں....۔‘‘ 2۔ فرعون موسیٰ علیہ السلام کی تحقیر کے لیے زیادہ سے زیادہ جو الفاظ استعمال کر سکتا تھا اس نے وہ کیے۔ ان میں سے لفظ ’’ هٰذَا ‘‘ بھی حقارت کے اظہار کے لیے ہے، یعنی ’’اس شخص سے جو حقیر ہے۔‘‘ وہ موسیٰ علیہ السلام کو اس لیے حقیر کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس اس جیسی نہ دولت تھی نہ قوت و سلطنت، بلکہ وہ اس کی غلام قوم کے ایک فرد تھے اور غلام تو حقیر ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ عجیب حقیر شخص تھا جس سے فرعون بھی شدید خوف زدہ تھا، ہر عذاب پر اس کے سامنے دعا کے لیے منت و سماجت کرتا تھا، اپنی ساری شان و شوکت، قوت و اقتدار اور افواجِ قاہرہ کے باوجود اسے اپنے دربار میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا تھا، جب کہ اس کے پاس نہ فوج تھی نہ اسلحہ، صرف ایک عصا ہاتھ میں لیے جب چاہتا اس کے سر پر پہنچ جاتا۔ اور یہ عجیب حقیر شخص تھا جس کے متعلق وہ اپنے سرداروں سے کہتا تھا : ’’مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔‘‘ (دیکھیے مومن : ۲۶) حالانکہ کسی نے اسے قتل کرنے سے نہیں روکا تھا اور فرعون میں یہ جرأت نہیں تھی کہ انھیں ہاتھ بھی لگا سکے۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا مال یا اقتدار حقارت یا عظمت کا پیمانہ ہے ہی نہیں اور نہ ہی موسیٰ علیہ السلام حقیر تھے، بلکہ وہ ظالم خود ہی حقیر و ذلیل تھا جو دنیا کے عارضی متاع پر مغرور ہو کر حق سے انکار پر اڑا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے کفار بھی دنیا کی دولت نہ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا ہونا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ 3۔ وَ لَا يَكَادُ يُبِيْنُ: بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا اشارہ اس لکنت کی طرف تھا جو موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں پائی جاتی تھی، مگر یہ بات درست نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد وہ لکنت دور ہو گئی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ! تمھاری دعا قبول کر لی گئی ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ۳۶) قرآن مجید میں فرعون کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام کے کئی مناظرے مذکور ہیں، جن میں انھوں نے نہایت فصیح و بلیغ الفاظ میں اپنا مدعا بیان فرمایا اور ہر موقع پر فرعون کو لاجواب کیا۔ اگرچہ انھوں نے اپنی مدد کے لیے ہارون علیہ السلام کو زیادہ فصیح اللسان ہونے کی وجہ سے مانگ کر لیا تھا، مگر کہیں بھی انھیں اظہار مقصد کے لیے ہارون علیہ السلام کی ضرورت نہیں پڑی۔ رہا فرعون کا ان کے متعلق کہنا کہ ’’قریب نہیں کہ وہ اپنی بات واضح کر سکے‘‘ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ کفار و مشرکین کی سمجھ میں پیغمبروں کی بات آتی ہی نہیں، جیسا کہ شعیب علیہ السلام جیسے زبردست خطیب کو ان کی قوم نے کہا : ﴿ يٰشُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْنَا ضَعِيْفًا﴾ [ھود:۹۱] ’’اے شعیب! ہم اس میں سے بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور بے شک ہم تو تجھے اپنے درمیان بہت کمزور دیکھتے ہیں۔‘‘ فرعون موسیٰ علیہ السلام پر وہی دو طعن کر رہا تھا جو اس سے پہلے شعیب علیہ السلام پر ان کی قوم نے کیے تھے کہ بات سمجھ میں نہ آنا اور ان کی نگاہ میں ان کا حقیر اور ضعیف ہونا۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی مشرکین کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، نہ ہی وہ اپنے جیسے دولت مندوں کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے کے لیے تیار تھے، فرمایا : ﴿ وَ عَجِبُوْا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ وَ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ (4) اَجَعَلَ الْاٰلِهَةَ اِلٰهًا وَّاحِدًا اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ (5) وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْهُمْ اَنِ امْشُوْا وَ اصْبِرُوْا عَلٰى اٰلِهَتِكُمْ اِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ يُّرَادُ (6) مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ اِنْ هٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقٌ (7) ءَاُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِيْ بَلْ لَّمَّا يَذُوْقُوْا عَذَابِ (8) اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِ﴾ [ صٓ : ۴ تا ۹ ] ’’اور انھوں نے اس پر تعجب کیا کہ ان کے پاس انھی میں سے ایک ڈرانے والا آیا اور کافروں نے کہا یہ ایک سخت جھوٹا جادوگر ہے۔ کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا؟ بلاشبہ یہ یقیناً بہت عجیب بات ہے۔ اور ان کے سرکردہ لوگ چل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر ڈٹے رہو، یقیناً یہ تو ایسی بات ہے جس کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ ہم نے یہ بات آخری ملت میں نہیں سنی، یہ تو محض بنائی ہوئی بات ہے۔ کیا ہمارے درمیان میں سے اسی پر نصیحت نازل کی گئی ہے؟ بلکہ وہ میری نصیحت سے شک میں ہیں، بلکہ انھوں نے ابھی تک میرا عذاب نہیں چکھا۔ کیا انھی کے پاس تیرے رب کی رحمت کے خزانے ہیں، جو سب پر غالب ہے، بہت عطا کر نے والا ہے۔‘‘