وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ
اور انھوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کے ذریعے دعا کر جو اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، بے شک ہم ضرور ہی سیدھی راہ پر آنے والے ہیں۔
1۔ وَ قَالُوْا يٰاَيُّهَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ....: یہاں یہ بات اختصار کے ساتھ ذکر ہوئی ہے، سورۂ اعراف میں تفصیل کے ساتھ ہے، فرمایا : ﴿ وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا يٰمُوْسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِنْدَكَ لَىِٕنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَ لَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ ﴾ [ الأعراف : ۱۳۴ ] ’’اور جب ان پر عذاب آتا تو کہتے اے موسیٰ! اپنے رب سے ہمارے لیے اس عہد کے واسطے سے دعا کر جو اس نے تیرے ہاں دے رکھا ہے، یقیناً اگر تو ہم سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ضرور ہی تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو ضرور ہی بھیج دیں گے۔‘‘ 2۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اتنی مشکل گھڑی میں جب وہ عذاب میں گرفتار تھے اور موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کر رہے تھے اس وقت بھی وہ موسیٰ علیہ السلام کو ’’ يٰاَيُّهَ السّٰحِرُ ‘‘ (اے جادوگر!) کے ساتھ مخاطب کر رہے ہیں، حالانکہ اس وقت تو انھیں کسی اچھے لفظ سے مخاطب کرنا چاہیے تھا۔ پھر موسیٰ علیہ السلام یہ صریح بہتان سن کر بھی انھیں کچھ نہیں کہتے، بلکہ ان کے لیے دعا کرکے انھیں عذاب سے نجات دلواتے ہیں۔ مفسرین نے اس کے کئی جواب دیے ہیں، یہاں ان میں سے دو جواب ذکر کیے جاتے ہیں۔ ابن کثیر نے فرمایا : ’’ساحر سے مراد عالم ہے، یہی ابن جریر نے فرمایا ہے۔ ان کے زمانے کے علماء جادوگر ہی تھے اور ان کے ہاں جادو بری چیز نہ تھا، اس لیے انھوں نے یہ الفاظ تنقیص کے لیے نہیں کہے، کیونکہ ان کی مجبوری کی حالت اس سے مناسبت نہیں رکھتی، بلکہ ان کے گمان کے مطابق یہ تعظیم کا لفظ تھا۔‘‘ (ابن کثیر) دوسرا جواب یہ ہے کہ انھوں نے خطاب ’’ يَا مُوْسٰي ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ہی کیا تھا، جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت (۱۳۴) میں ہے، مگر وہ دل سے انھیں جادوگر سمجھتے تھے اور وہ جادو اور جادوگروں کو مذموم ہی سمجھتے تھے، جیسا کہ اس سے پہلے فرعون اور اس کے درباریوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا : ﴿ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ ﴾ [ المؤمن : ۲۴ ] ’’تو انھوں نے کہا جادو گر ہے، بہت جھوٹا ہے۔‘‘ اب ان کا حال دیکھیے کہ وہی شخص جسے وہ جادوگر سمجھتے تھے نہایت عاجزی کے ساتھ اسی سے دعا کی درخواست کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست کا ذکر فرماتے ہوئے ان کے دل کی حالت کا ذکر اپنے الفاظ میں فرمایا ہے۔ مقصود ان پر طعن ہے کہ جب جادوگر سمجھتے ہو اور ہمیشہ اسے اسی لفظ سے یاد کرتے ہو تو اس سے دعا کی درخواست کیسی؟ اور اگر مستجاب الدعاء کہتے ہو تو جادوگر کیوں سمجھتے ہو؟ یہ ایسے ہی ہے کہ قریش جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے، مشکل وقت میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست بھی کیا کرتے تھے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا حال بیان کیا ہے، فرماتے ہیں : (( وَ إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوْا عَنِ الْإِسْلاَمِ فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوْسُفَ، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتّٰی هَلَكُوْا فِيْهَا، وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَ يَرَی الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَجَاءَهُ أَبُوْ سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ ! جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوْا فَادْعُ اللّٰهَ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ الروم : ۴۷۷۴ ]’’قریش نے اسلام قبول کرنے میں دیر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بددعا کی : ’’اے اللہ! ان کے خلاف یوسف( علیہ السلام ) کے قحط والے سات سالوں جیسے سات سالوں کے ساتھ میری مدد فرما۔‘‘ تو انھیں قحط نے آ لیا، یہاں تک کہ وہ اس میں برباد ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھا گئے اور آدمی کو آسمان و زمین کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ابوسفیان آیا اور کہنے لگا : ’’اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ آپ کی قوم برباد ہو گئی ہے، اس لیے اللہ سے دعا کیجیے۔‘‘ اس حدیث میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قحط دور ہوا تو پھر منکر ہو گئے۔ مجھے یہ دوسرا جواب بہتر معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)