حَتَّىٰ إِذَا جَاءَنَا قَالَ يَا لَيْتَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ فَبِئْسَ الْقَرِينُ
یہاں تک کہ جب وہ ہمارے پاس آئے گا تو کہے گا اے کاش! میرے درمیان اور تیرے درمیان دو مشرقوں کا فاصلہ ہوتا، پس وہ برا ساتھی ہے۔
1۔ حَتّٰى اِذَا جَآءَنَا قَالَ....: دنیا میں ہر وقت شیطان کے ساتھ رہنے کے بعد قیامت کے دن اللہ کے ذکر سے اندھا بننے والا انسان جب اپنے قرین کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہو گا تو حسرت و افسوس کے ساتھ اس سے کہے گا، کاش! میرے اور تیرے درمیان دو مشرقوں کی دوری ہوتی۔ دو مشرقوں سے مراد مشرق و مغرب ہیں۔ دونوں کو ’’مشرقین ‘‘ کہہ دیا ہے، جیسے ابوبکر و عمر( رضی اللہ عنھما ) کو ’’عمرین ‘‘کہہ دیتے ہیں اور کھجور اور پانی کو ’’اسودین ‘‘کہہ دیتے ہیں۔ دو مشرق بھی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ سردیوں میں سورج طلوع ہونے کی جگہ اور گرمیوں میں طلوع ہونے کی جگہ کے درمیان بہت فاصلہ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ﴾ [ الرحمان : ۱۷ ] ’’(وہ) دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب۔‘‘ 2۔ فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ: ’’أَيْ بِئْسَ الْقَرِيْنُ أَنْتَ‘‘ یعنی تو برا ساتھی ہے، جس نے دوست بن کر مجھے خراب و برباد کیا اور ہمیشہ کے عذاب میں پھنسا دیا۔ بعض مفسرین نے اسے اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دے کر معنی کیا ہے : ’’ فَبِئْسَ الْقَرِيْنُ هُوَ ‘‘ یعنی پس وہ برا ساتھی ہے۔