وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ
اور بے شک وہ ضرور انھیں اصل راستے سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں۔
1۔ وَ اِنَّهُمْ لَيَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ: ’’ اِنَّهُمْ ‘‘ میں ضمیر شیاطین کی طرف اور ’’ لَيَصُدُّوْنَهُمْ ‘‘ میں ضمیر ’’هُمْ‘‘ رحمان کے ذکر سے غفلت کرنے والوں کی طرف جا رہی ہے، حالانکہ پچھلی آیت میں دونوں کا ذکر واحد کی ضمیر کے ساتھ آیا ہے، لیکن وہاں بھی لفظ ’’ مَنْ ‘‘ واحد ہونے کے باوجود معنی کے لحاظ سے جمع ہے۔ یعنی اس کی یاد سے جان بوجھ کر غفلت کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی شیطان چمٹ جاتے ہیں، خواہ انسانی شیطان ہوں یا ابلیس کی اولاد، وہ ان کے لیے گناہوں کو خوبصورت کرکے دکھاتے ہیں، ان کی نفسانی خواہشات کو ابھارتے اور انھیں اللہ کی نافرمانی میں مشغول کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ انھیں صراطِ مستقیم سے بالکل روک دیتے ہیں اور جہنم میں پہنچا کر چھوڑتے ہیں۔ 2۔ وَ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ: یعنی راہِ راست سے رک جانے والے وہ غافل سراسر گمراہ ہونے کے باوجود اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گمراہ کرنے والے شیاطین کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں، اس لیے آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے چلتے چلے جاتے ہیں۔