وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔
1۔ وَ قَالُوْا لَوْ شَآءَ الرَّحْمٰنُ مَا عَبَدْنٰهُمْ: یہ اپنی گمراہی اور مشرکانہ گستاخی پر کفارِ مکہ کا ایک اور استدلال تھا، یعنی وہ اپنے آپ کو مجرم سمجھنے کے بجائے سارا الزام تقدیر الٰہی پر دھرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی یہ مشیت تھی اور اس نے ہماری قسمت میں لکھ دیا تھا کہ ہم فرشتوں کو دیویاں سمجھ کر ان کی پرستش کریں۔ تقدیر الٰہی سے اس قسم کا غلط استدلال باطل پرستوں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی پسند دوسری چیز ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا جیسے یہ مشرک کہتے تھے تو اللہ تعالیٰ کو پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر شرک سے روکنے کی کیا ضرورت تھی۔ (ابن کثیر) مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انعام (۱۴۸) اور سورۂ نحل (۳۵) کی تفسیر۔ 2۔ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ: یعنی وہ تقدیر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کو غلط معنی پہناتے ہیں۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’ یعنی یہ تو سچ ہے کہ بن چاہے خدا کے کوئی چیز نہیں، پر اس کا بہتر ہونا نہیں نکلتا۔ اس نے قُوت (خوراک) بھی پیدا کی اور زہر بھی، پر زہر کون کھاتا ہے۔‘‘ (موضح) 3۔ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ: یعنی جہالت کی وجہ سے ایسی باتیں بناتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔